Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
اپنے پروردگار سے دعائیں مانگو آہ وزاری کرتے ہوئے بھی اور پوشیدگی میں بھی وہ انہیں پسند نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے ہیں
رب کریم کے سامنے عاجزی و نیاز مندی کا اظہار کرتے رہنا ہی عقلمندی ہے : 66: گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے خاص خاص مظاہر اور اہم انعامات کا ذکر تھا اس آیت میں اس کا بیان ہے کہ جب قدرت مطلقہ کا مالک حقیقی اور تمام احسانات و انعامات کا کرنے والا صرف اور صرف رب العالمین ہے تو مصیبت اور حاجت کے وقت اسی کو پکارنا اور اسی سے دعا کرنا چاہئے۔ اس کو چھوڑ کر کسی دوسری طرف متوجہ ہونا جہالت اور محرومی ہے۔ پھر دعا کے بعد آداب بھی ارشاد فرما دئیے گئے جن کی رعایت کرنے سے قبولیت دعا کی امید زیادہ ہوجاتی ہے۔ دعا کیا ہے ؟ انسان کا ایک فطری تقاضا ہے اور فطری تقاضے ہر وقت ایک جیسے نہیں ہوتے اور جب وقت آتا ہے تو فطرت خود اس کو طلب کرتی ہے اور یہ سوال اس وقت خود بخود حل ہوجاتا ہے اسلام اس سلسلہ میں یہ رہنمائی کرتا ہے کہ سارے انسانوں کی دعائیں سننے اور ان کو پورا کرنے کا اختیار صرف اور صرف اللہ ہی کو ہے غیر اللہ کو مطلق نہیں اور جو لوگ غیر اللہ سے طلب کرتے ہیں وہ گویا ایک غیر فطری عمل کرتے ہیں۔ دعا کا لفظ عربی زبان میں کسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور مطلق پکارنے کے معنی میں بھی اور اس جگہ دونوں معنی مراد ہیں ادعوا ربکم یعنی اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے اپنے رب کو پکارو اور یاد کرو اور یہ بھی کہ رب ہی کی عبادت کرو کیونکہ اللہ وہ ذات ہے جو کسی انسان کی ظاہری آنکھ سے دیکھا نہیں جاسکتا اور ایمانیات میں وہ ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح کسی غیر اللہ کے متعلق بھی یہ ایمان ہو کہ وہ اس وقت یہاں دکھائی نہیں دیتا لیکن ہر جگہ ہر وقت موجود ہے یا جس وقت میں پکارتا ہوں تو آموجود ہوتا ہے ” شرک “ ہے۔ ہاں ! سامنے کوئی موجود ہو اور اس کو بلایا جائے وہ اسی وقت مرئی طور پر انسان کا ہاتھ بٹائے اس کے ساتھ تعاون کرے اس لئے کہ اس نے تعاون کے لئے اس کو کہا ہے تو یہ دوسری بات ہے۔ یہ اس پکارنے میں نہیں آتا جس پکارنے یا دعا کرنے کا ذکر اس جگہ ہو رہا ہے۔ ایسی غلط فہمیاں ہمیشہ شیطان پیدا کرتا رہتا ہے۔ اس لئے اس سے چوکنا رہنا چاہئے۔ مذکورہ دو صورتوں میں پہلی صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اپنی حاجات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے مانگو اور دوسری صورت میں یہ کہ ذکر و عبادت صرف اسی کی کرو۔ یہ دونوں مفہوم احادیث سے بالکل واضح ہیں۔ ازیں بعد ارشاد فرمایا : ” تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً 1ۚ “ تضرع ضراعت سے ہے جس کے معنی عاجزی ، خوشامد ، لجاجت اور تملق کے اظہار کے ہیں پھر یہ اظہار حرکات و ادائوں سے بھی ہوتا ہے اور الفاظ وعبارات سے بھی اور اس کی سب سے زیادہ موثر وہ شکل ہے جب الفاظ وحرکات دونوں میں ہم آہنگی کے ساتھ نمایاں ہو اور اس کی بہترین شکل ” صلوٰۃ “ ہے اور ” خفیۃ “ کے معنی چپکے اور پوشیدہ کے ہیں یہ دعا کے آداب میں سے ہے جو تضرع کے اخلاص کا ضامن بھی ہے اس لئے کہ جو کام چپکے چپکے کیا جاتا ہے جبکہ وہ برا نہ ہو بلکہ نیک ہو تو وہ یقیناً ریا کے فتنہ سے محفوظ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ دلوں کے رازوں سے بھی واقف ہے اس لئے اس کو سنانے اور اس سے فریاد کرنے کے لئے چیخنے اور چلانے کی ضرورت نہیں۔ اس جگہ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ فی زماننا جس طرح اور جس انداز سے دعائیں مانگی جاتی ہیں جبکہ وہ خالص اللہ تعالیٰ سے بھی ہوں تو وہ کیا ہیں ؟ جو الفاظ زبان سے ادا کئے جاتے ہیں ان کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہیں ” دعا “ تو انسان کو بھی اپنی ضرورت مانگنے کو کہتے ہیں۔ ضرورت کیا ہے ؟ ہر انسان اپنی طلب خود ہی جانتا ہے کہ اس کو کس چیز کی طلب ہے ؟ ہاں ! ہمیں تو یہ معلوم ہے کہ بچے ، جوان اور بوڑھے کی طلب ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ آج کل عام مساجد میں نماز کے بعد اماموں کا معمول ہوگیا ہے کہ کچھ عربی زبان کے دعائیہ کلمات انہیں یاد ہوتے ہیں اور وہ ختم نماز پر انہیں لوگوں کے سامنے پڑھ دیتے ہیں اکثر تو خود ان اماموں کو بھی ان کلمات کا مطلب و مفہوم معلوم نہیں ہوتا اور اگر ان کو معلوم ہو تو کم از کم جاہل مقتدی تو اس سے بالکل بیخبر ہوتے ہیں۔ وہ بےسمجھے سوچے امام کے پڑھے ہوئے کلمات کے پیچھے آمین آمین کہتے ہیں اس طرح کے جو کلمات پڑھے جاتے ہیں ان کو وہ دعائیں یا الفاظ پڑھنا تو کہہ سکتے ہیں لیکن دعا مانگنے کی جو حقیقت ہے وہ یہاں پائی ہی نہیں جاتی یہ دوسری بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے ان بےجان کلمات ہی کو قبول فرما کر قبولیت دعا کے آثار پیدا کر دے مگر اپنی طرف سے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ دعا پڑھی نہیں جاتی بلکہ مانگی جاتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ مانگنے کے ڈھنگ ہی سے مانگی جائے۔ اس طرح زیر نظر آیت میں پہلے لفظ میں روح دعا بتلا دی گئی کہ وہ عاجزی و انکساری اور اپنی ذلت و پستی کا اظہار کر کے اپنی ضرورت اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا ہے۔ دوسرے لفظ میں ایک دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ دعا کا خفیہ اور آہستہ مانگنا افضل اور قرین قبول ہے کیونکہ بآواز بلند دعا مانگنے میں اول تو تواضع اور انکساری مشکل ہے۔ دوسرے اس میں ریاء و شہرت کا بھی امکان ہے۔ تیسرے اس کی صورت عمل ایسی ہے کہ گویا یہ شخص یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ سیعگ وعلیم ہے۔ ہمارے ظاہر و باطن کو جانتا ہے۔ ہر بات وہ خفیہ ہو یا جہر اس کو سنتا ہے ہم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے کہ اتنا زور سے پکاریں اور چیخ چیخ کر کہیں کہ دل کی حاضری بھی مکمل نہ رہے بلکہ یہ دعا ایک شغل بن جائے اس لئے سب سے بہتر بات یہی ہے کہ اپنی دعائوں کو اپنے اور اپنے مالک حقیقی اور پروردگار عالمین کے درمیان ہی رہنے دیا جائے۔ مانگنے والا جانے یا دینے والا۔ کوئی دوسرا کھوج ہی لگاتا رہ جائے لیکن کسی کو معلوم نہ ہو کہ مانگنے والے نے کب مانگا اور دینے والے نے کیسے دے دیا۔ ایسے مانگنے اور ایسے دینے کی شان ایک نرالی ہے اور سارا مزا زندگی کا اسی میں ہے۔ اللہ والوں کی دعائیں اسی نہج کی ہوتی ہیں کہ ان کو مانگتے کوئی نہیں سنتا اور ان کو پاتے کوئی نہیں دیکھتا لیکن ان کا نظام حیات اس طرح چلتا ہے کہ بعض اوقات ان کو خود بھی یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ وقت کس طرح آیا اور کس خوبی سے نکل گیا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ : (خَیْرُ الذِّكْرِ الْخَفِیُّ وَخَیْرُ الرِّزْقِ مَا یَكْفِی ) (مسند احمد : جلد اول : حدیث نمبر 1397 ) ” بہترین ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو انسان کے لئے کافی ہو۔ “ اور جہاں جہاں جہر ضروری تھا وہ خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے قول و عمل سے واضح فرما دیا۔ مثلاً اذان ، اقامت ، جہری نماز ، تکبیرات ، تکبیر انتقال ، تکبیرات تشریق اور حج میں تلبیہ وغیرہ اور ان پر غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ ان کے جہر کرنے میں کیا حکمت اور کیا راز ہے ؟ الْمُعْتَدِیْنَ ، اعتداء سے ہے اور اعتدا حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حد سے آگے بڑھے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ حد سے تجاوز خواہ دعا میں ہو یا کسی دوسرے عمل میں۔ دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ مثلاً ایسے امور کے لئے دعا کرے جو عقلاً اور شرعاً ممنوع ہوں۔ حرام چیزوں کے لئے دعا کرنا۔ آداب دعا کو نظر انداز کردینا۔ مسلمانوں کے حق میں بددعا کرنا۔ دعا میں قیدیں اور شرطیں لگانا وغیرہ اس طرح دعا میں بلا ضرورت آواز بلند کرنا وغیرہ۔
Top