Urwatul-Wusqaa - Nooh : 15
اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاۙ
اَلَمْ تَرَوْا : کیا تم نے دیکھا نہیں كَيْفَ : کس طرح خَلَقَ اللّٰهُ : پیدا کیا اللہ نے سَبْعَ سَمٰوٰتٍ : سات آسمانوں کو طِبَاقًا : تہ بہ تہ
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے (تمہاری خاطر) کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے ہیں
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان بنا دیئے ہیں 15 ؎ اس پہلے انسان کو اندرونی شہادتوں کی طرف توجہ دلائی جو انسان کے اپنے اندر موجود ہیں اور جو اس کی پیدائش سے لے کر اس کے بوڑھے ہونے اور مرنے تک پائی جاتی ہیں اور اگر آدمی ان ہی میں سے ایک ایک پر غور کرتا جائے تو اس کو کسی دوسری طرف دھیان دینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی توجہ آسمانوں کی بلندیوں کی طرف مبذول کرائی ہے کہ اگر وہ اس طرح عبرت حاصل نہیں کرتا تو اس کو بیرونی شہادتوں سے روشناس کرایا جائے کیونکہ اصل مقصود تو انسان کی تفہیم ہے وہ خواہ کسی صورت میں بھی ہو۔ فرمایا اگر انسان غوروفکر کرے تو اس کی حکمت کے اور رحمت کے آثار ہر طرف جلوہ نما ہوتے ہیں۔ فرمایا اگر وہ اپنے سر کے اوپر خیال کرے تو وہ آسمانوں کو دیکھے گا اور پھر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کو سات آسمان تہ بہ تہ بنا دیئے ہیں اور ہم اس آسمان دنیا پر نظر دوڑائیں جو ہر ایک انسان کو خواہ وہ کوتاہ عقل ہے یا بہت عقل مند اپنی بصیرت و بصارت کے ذریعہ وہ اس کو ستاروں ، سورج اور چاند سے مزین پائے گا اور پھر ان سب کا باقاعدہ نظام اس کو متوجہ کرے کہ اتنا مضبوط اور پختہ نظام جس میں ایک سیکنڈ کا سواں حصہ (Fraction of Secand) میں کبھی فرق نہیں پڑا۔ کیا یہ سب کچھ سوائے کسی بنانے والے اور سوائے کسی چلانے والے کے چل رہا ہے ؟ تو آخر اس کو یقین کرنا ہوگا کہ جو اس کا بنانے والا ہے وہی اس کا چلانے والا بھی ہے اور پھر اس کو تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اس سارے نظام کو بنایا ہے اور وہی ہے جو اس سارے نظام کو چلا رہا ہے۔ اگرچہ ہم اس کی لم اور حقیقت سے ناواقف ہیں کہ یہ اس نے کیسے بنایا ہے ؟ پھر اس کی وضاحت پیچھے بہت سے مقامات پر گزر چکی ہے کہ سات آسمانوں سے کیا مراد ہے اور ان کے تہ بہ تہ ہونے کا کیا مطلب ہے۔ زیر نظر آیت میں (طباقا) کا لفظ آیا ہے جس کے معنی اوپر تلے ، تہ بہ تہٗ توبہ تو کے الفاظ سے کئے جاتے ہیں۔ یہ باب مفاعلہ کا مصدر ہے فعل طابق یطایق آتا ہے ” مطابقت “ اسماء متضائفہ میں ہے اس کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز کے اوپر اس کے اندازے کے مطابق رکھ دینا جے سن بولا جاتا ہے طابقت التعل ” میں نے ایک جوتے کو دوسرے کے مطابق کردیا اور اس طرح کسی کے قدم بقدم چلنے کے لئے بطور محاورہ بھی مستعمل ہے۔ اس سے ” طباق “ کا استعمال کبھی تو اس شے کے لئے ہوتا ہے جو دوسروں کے اوپر ہو اور کہیں اس شے کے لئے کہ جو دوسری شے کے موافق ہو۔ امام ابو جعفر بیہقی تاج المصادر میں لکھتے ہیں کہ یہ لفظ ایک شے کے اوپر دوسری شے اس طرح پھیلا کر رکھنے پر دلالت کرتا ہے کہ یہ اس کو اچھی طرح ڈھانپ لے۔ اس آیت کی مزید تفصیل دیکھنا مطلوب ہو تو عروۃ الوثقی جلد اول سورة البقرہ کی آیت 229 تا 261 جلد ششم سورة المؤمنون کی آیت 17 ، جلد ہشتم سورة فصلت آیت 12 ، جلد نہم سورة الطلاق کی آیت 12 ، سورة الملک کی آیت 3 ، سورة الحاقہ آیت 7 ملاحظہ کریں۔
Top