Urwatul-Wusqaa - Nooh : 27
اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَ لَا یَلِدُوْۤا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا
اِنَّكَ : بیشک تو اِنْ : اگر تَذَرْهُمْ : تو چھوڑ دے گا ان کو يُضِلُّوْا : وہ بھٹکا دیں گے عِبَادَكَ : تیرے بندوں کو وَلَا يَلِدُوْٓا : اور نہ وہ جنم دیں گے اِلَّا فَاجِرًا : مگر فاجروں کو۔ نافرمانوں کو كَفَّارًا : سخت کافروں کو
اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو بہکاتے ہی رہیں گے اور ان کی اولاد بھی کافر و بدکار ہی ہو گی
اگر تو نے ان میں سے کوئی بھی چھوڑا تو وہ تیرے بندوں کو بہکائے گا 27 ؎ جیسا کہ ہم نے سورة ہود کی آیت کے حوالہ سے اوپر بیان کردیا ہے کہ جب نوح (علیہ السلام) کو یہ معلوم ہوگیا کہ ان کے ابلاغ حق میں کوتاہی نہیں ہے بلکہ خود نہ ماننے والوں کی استعداد کا قصور ہے اور ان کی اپنی سرکشی کا نتیجہ ہے تب ان کے اعمال اور کمینہ حرکات سے متاثر ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا فرمائی کہ اے پروردگار ! تو کافروں میں سے کسی کو بھی اس زمین پر باقی نہ رہنے دے اگر تو نے ان کو یونہی چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو بھی گمراہ کریں گے اور رہے یہ خود ، تو ان کی اولادیں جو پیدا ہوں گی وہ نافرمان ہی پیدا ہوں گی اور اس طرح اس زمین کو وہ پھر کفر و شرک ت سے بھر دیں گے۔ لیکن یہ ایک دعا ہے جو نوح (علیہ السلام) نے فرمائی۔ قانون مشیت کے مطابق پھر بھی جن کو کفر و شرک کرنا تھا وہ پیدا ہوئے اور انہوں نے بدستور کفر و شرک سے اس زمین کو گندا کیا اور آج تک ان کے طریقہ پر چلنے والے اپنا کام کر رہے ہیں بلکہ ہر دور میں ان ہی لوگوں کی کثرت رہی ہے اور اس وقت غیر مسلموں کے کفر و شرک کو اگر نگاہ میں نہ رکھا جائے تو بھی صرف مسلمانوں کے کفر و شرک میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ زیر نظر آیت کی تفسیر میں جناب سید پیر کرم شاہ صاحب (رح) طرح مصرع دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ : ” معلوم ہوا کہ نوح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بتانے سے یہ بھی جانتے تھے کہ اب ان کی نسلوں میں کوئی بھی مومن پیدا نہ ہوگا سب فاسق و فاجر ، مشرک و کافر پیدا ہوں گے “ اور اس طرح جو رمز انہوں نے اپنے ماننے والوں کو دی ہے وہ صاف ظاہر ہے حالانکہ اس کی وضاحت جب خود اللہ تعالیٰ نے فرما دی اور نوح (علیہ السلام) کو وحی کے ذریعہ بتا دیا تو پھر الٹے ہاتھ سے کان پکڑنے کا فائدہ ؟ اور صاف بات کو رمز میں ڈال کر کسی کی شرک کی طرف راہنمائی کا مطلب ؟ پیر صاحب اگر اس جگہ سورة ہود کی آیت 36 کا حوالہ دے دیتے تو بات بالکل صاف ہوجاتی۔
Top