Urwatul-Wusqaa - An-Naba : 40
اِنَّاۤ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا١ۖۚ۬ یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ وَ یَقُوْلُ الْكٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ تُرٰبًا۠   ۧ
اِنَّآ اَنْذَرْنٰكُمْ : بیشک ہم نے، خبردار کیا ہم نے تم کو عَذَابًا قَرِيْبًا ڄ : قریبی عذاب سے يَّوْمَ يَنْظُرُ : جس دن دیکھے گا الْمَرْءُ : انسان مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ : جو آگے بھیجا اس کے دونوں ہاتھوں نے وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ : اور کہے گا کافر يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش کہ میں كُنْتُ تُرٰبًا : میں ہوتا مٹی/خاک
بلاشبہ ہم نے تم کو عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرا دیا ، اس دن ہر شخص (اپنے) ان (اعمال) کو جو اس نے آگے بھیجے ہیں (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لے گا اور کافر کہے گا اے کاش ! کہ میں مٹی ہوتا
بلاشبہ ہم نے تم کو فریب آنے والے دن کے عذاب سے ڈرایا ہے ۔ 40 مقرر وقت کوئی بھی ہو وہ قریب ہی ہوتا ہے دور نہیں ہوتا لیکن اس جگہ (عذاباً قریباً ) سے مراد موت کا دن ہے جو ہر ایک انسان کے لئے انفرادی طور پر مقرر کیا گیا ہے اور جو اتنا قریب ہے کہ بس ابھی آیا کہ آیا اور جوں ہی کسی شخص کی موت واقع ہوگئی اس کی قیامت واقع ہوگئی کیونکہ اب موت کے بعد خواہ کروڑوں سال گزر جائیں یا ایک دن ؟ مرنے والے کے لئے ان کی نوعیت ایک ہی جیسی ہے کیونکہ اس کے لئے اب دوبارہ پیدا ہونا ایک ہی بار ہے اور وہ وہی آخرت کا مقررہ دن ہے۔ رہی یہ بات کہ موت کے دن کو (عذاباً ) کیوں کہا گیا ہے ؟ تو ظاہر ہے کہ موت فی الواقع ایک عذاب ہے کہ دو ایسے ساتھیوں کی جدائی کا وقت ہے جو ایک ساتھ اس دنیا میں آئے تھے اور اب دونوں کے الگ الگ ہونے کا نام موت ہے اور جدائی کا وقت خواہ کتنا ہی خوشی کا وقت کیوں نہ ہو ایک طرح کا عذاب ہے اس لئے جان کنی کے وقت کو عذاب کا وقت قرار دیا گیا ہے اور جس شخص پر بھی یہ وقت آتا ہے یا آئے گا خواہ وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو بہرحال ایک عذاب ہے اور یہی وہ دن ہے جس دن انسان کو اپنی زندگی کا ایک ایک ورق ، ایک ایک حرف اور ایک ایک لمحہ یاد آئے گا کیونکہ اس نے جو کچھ آگے بھیاج ہوگا وہ یقینا اس کو یاد آئے گا اور ایسا لگے گا گویا سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا ہے اور اس کے بعد کیا ہے ؟ بس ایک چیز ہے کہ انسان کا دوبارہ جی اٹھنا پھر جونہی دوبارہ جی اٹھنا اور اس دن کو اپنے سامنے پانا ہے جس دن سے دنیا میں وہ اناکر کرتا رہا تو جو اس پر گزرے گی اور خصوصاً اس شخص پر جو ساری زندگی کفر کرتا رہا یعنی اس دوبارہ زندگی سے انکار کرتا رہا اب وہ سوائے اس کے کیا کہے گا یہی کہ کاش جب میں مر گیا ہوتا تو مرا ہی رہتا اور اس وقت کبھی بھی زندہ نہ ہوتا ، کیوں ؟ اس لئے کہ اب دوزخ اس کو اپنے سامنے نظر آرہی ہے اور دوزخ کا عذاب ایسی چیز نہیں ہے کہ کوئی اس کو خوشی سے قبول کرلے۔ بلاشبہ کافر کے اعمال کا مکمل نتیجہ جب اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا تو اس وقت اس کے سارے نشے ہرن ہوجائیں گے اور ساری نخوتیں خاک میں مل جائیں گی اور وہ بصد حسرت و یاس کہے گا کہ کاش ! میں مٹی میں مل کر مٹی ہوگیا ہوتا اور مجھے یہ روز بد کبھی دیکھنا نہ پڑتا لیکن اب جو ہونا تھا وہ ہوگیا اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اسی مضمون پر ہم سورة النباء کی تفسیر کو ختم کر رہے ہیں اللھم اغفرلی وارحمتی و عافنی وارزقنی یوم القیامۃ انک انت الغفور الرحیم۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
Top