Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 11
اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ
اِذْ : جب يُغَشِّيْكُمُ : تمہیں ڈھانپ لیا (طاری کردی) النُّعَاسَ : اونگھ اَمَنَةً : تسکین مِّنْهُ : اس سے وَيُنَزِّلُ : اور اتارا اس نے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی لِّيُطَهِّرَكُمْ : تاکہ پاک کردے تمہیں بِهٖ : اس سے وَيُذْهِبَ : اور دور کردے عَنْكُمْ : تم سے رِجْزَ : پلیدی (ناپاکی) الشَّيْطٰنِ : شیطان وَلِيَرْبِطَ : اور تاکہ باندھ دے (مضبوط کردے) عَلٰي : پر قُلُوْبِكُمْ : تمارے دل وَيُثَبِّتَ : اور جمادے بِهِ : اس سے الْاَقْدَامَ : قدم
جب اس نے چھا جانے والی غنودگی تم پر طاری کردی تھی کہ یہ اس کی طرف سے تمہارے لیے تسکین و بےخوفی کا سامان تھا اور آسمان سے تم پر پانی برسا دیا تھا کہ تمہیں پاک و صاف ہونے کا موقعہ دے دے اور تم سے شیطان کی ناپاکی دور کر دے نیز تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھ جائے اور قدم جم جائیں
تمہارے دلوں کو مطمئن کر کے تم کو گہری نیند سلایا اور تمہاری ساری ناپاکی کو دور کردیا : 18: اس آیت میں اوپر ذکر کی گئی خوشخبری کی مزید تشریح اور تفصیل ذکر کی گئی تاکہ بات سمجھنے والے اچھی طرح سمجھ جائیں۔ اس لئے زیر نظر آیت میں مختلف پانچ باتوں کا ذکر کیا گیا پہلی بات یہ ہوئی کہ ” اس نے چھا جانے والی غنودگی تم پر طاری کردی۔ “ دوسری بات یہ ہوئی کہ ” تمہارے دل تسکین و بےخوفی کا سامان پیدا کردیا۔ “ تیسری بات یہ ہوئی ” آسمان سے پانی برسا کر تمہارے ریتلے میدان کو پختہ کردیا۔ “ اور چوتھی بات یہ ہوئی کہ ” تم سے شیطان کا وسوسوں کی ناپاکی دور کردی۔ “ اور پانچویں بات یہ ہوئی کہ ” تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھا دی اور تمہارے قدم جما دیئے۔ “ 1- جس وقت کفر و اسلام کا یہ پہلا معرکہ معرض وجود میں آگیا تو کفار مکہ کا لشکر پہلے پہنچ کر ایک ایسے مقام پر پڑاؤ ڈال چکا تھا جو تقریباً اونچائی پر تھا اور پانی بھی اس کے بالکل قریب تھا۔ نبی اعظم و آخر اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو اس وادی کے نچلے حصہ میں جگہ ملی چناچہ اس کے پورے نقشہ کا ذکر آگے آنے والا ہے۔ جس جگہ آپ ﷺ نے سب سے پہلے قیام فرمایا اس مقام کے واقف کار جناب حباب بن المنذر نے آپ ﷺ سے عرض کی کہ یا رسول اللہ جو مقام آپ نے اختیار فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے یا محض رائے اور مصلحت کے پیش نظر ہے۔ مطلب یہ تھا کہ اس میں ہم بھی کوئی رائے دے سکتے ہیں یا محض مجبور ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ کوئی حکم الٰہی کے مطابق نہیں اور اس میں تبدل و تغیر کیا جاسکتا ہے اور آپ بھی اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ اسی حباب بن المنذر نے اپنی رائے بھی دی جو آپ ﷺ نے پسند فرمائی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا گیا۔ پھر جب آپ ﷺ نے دعا فرمائی جس کا ذکر پیچھے گزر چکا تو اللہ تعالیٰ نے مدد کا خالص وعدہ فرمایا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ کرام ؓ کا سارہ خطرہ کافور ہوگیا اور رات بھر صحابہ کرام ؓ بھر پور نیند سوئے جس طرح ایک بےفکر آدمی سوتا ہے اور اس غنودگی نے ساری تھکاوٹ دور کردی اور صبح کو سارے صحابہ کرام ؓ چاک و چوبند اور ہوشیار نظر آنے لگے گویا یہ اس خوشخبری کا پہلا عملی فائدہ پہنچا۔ 2- تسکین و بےخوفی کا سامان اس طرح پیدا ہوا کہ جب کامیابی کی خوشخبری مل گئی تو سب صحابہ کرام ؓ کے دل مطمئن ہوگئے۔ اب تو شدت سے انتظار ہونے لگا کہ وہ گھڑی جلد آئے اور ہم ان کفار کو اس طرح اچک لیں جس طرح چیل چوزے کو اچک کرلے جاتی ہے یا باز اپنے شکار پا ایک ہی بار جست لگا کر اڑتا بنتا ہے۔ اس بےخوفی نے صحابہ ؓ کے حوصلے بلند کردیئے اور وہ بےخوف و خطر وقت کا انتظار کرنے لگے۔ 3- رات کے وقت اللہ نے بارش برسائی اور اس بارش کا بےانداز فائدہ مسلمانوں کو پہنچا اور کفار مکہ کا اس سے بہت سا نقصان ہوا اور وہ اس طرح میدان پتھریلی ریت کا تھا ریت بارش کا باعث سخت ہوگئی اور پاؤں ریت پر اچھی طرح سے جم گئے اور دوسری طرح نشیب میں پانی جمع ہوگیا جس کو اپنے بالکل قریب ہی منڈیتیں بنا کر روک لیا گیا تاکہ پانی سے اپنی ساری ضرورتیں پوری کی جاسکیں اور دوسری طرف چونکہ ڈھلائی تھی اور علاقہ بھی ریتلا تھا اس لئے بارش سے پاؤں پھسلنے لگے اور قدم زمین پر نہ سکتے تھے۔ یہ بھی گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمانی مدد مسلمانوں کو مل گئی جس نے دلوں کی مضبوطی میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔ 4- شیطانی وسوسے جو اس نے کچھ لوگوں کو گھلا رہے تھے جن کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے کہ اب کیا ہوگا ؟ ہماری تعداد بہت کم ہے اور دنیوی ساز و سامان کی بھی ہمارے ہاں بہت کمی ہے اور جگہ بھی ہم کو اچھی نہیں ملی یہ سب شیطانی وساوس تھے اور اس خوشخبر اور اس طرح کے اطمینان قلب نے ان سارے وساوس کو یک قلم ختم کردیا اور کل تک ہراساں و پریشان حال نظر آنے والے آج خوش و خرم نظر آنے لگے۔ بلاشبہ اس شیطان کی ناپاکی سے مفسرین نے کچھ ایسی ناپاکی مراد لی ہے جس کو خواب میں ناپاک ہوجانے سے تعبیر کرتے ہیں لیکن ہمارے خیال میں اس ناپاکی کے مراد لینے کی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی اور جس ناپاکی کا ذکر خود قرآن کریم نے کیا ہے وہ وہی دلوں کی ناپاکی تھی جس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اس طرح میدان جنگ کی طرف نکلنا تم کو اتنا شاق گزرا کہ تمہارے پاؤں بوجھل گوئے اور ایسا معلوم ہوا کہ گویا تم موت کی طرف چلائے جا رہے ہو گویا یہ دل کی ناپاکی تھی اور اس ناپاکی کو رِجْزَ الشَّیْطٰنِ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 5- دلوں کی ڈھارس بندھ گئی کہ اب وہ وقت دور نہیں جب ہم لوگ انشاء اللہ فتح و نصرت سے دو چار ہوں گے اور کامیاب و کامران مدینہ کی طرف جائیں گے اور میدان جنگ میں گویا مسلمانوں کے قدم جم گئے اور ارادے پختہ ہوگئے۔ قدم جم جانا محاورہ بھی ہو سکتا ہے اور حقیقت بھی کہ بارش کی وجہ سے زمین پر قدم جم گئے جہاں پاؤں رکھا وہ پھسلنے سے رک گیا جیسا کہ ریت پر پاؤں رکھنے سے پیچھے سے پھسلتا ہے وہ کیفیت نہ رہی بلکہ زمین پر بارش کی وجہ سے قدم جم گئے اور ان کے قدم اکھڑ گئے اور وہ اس طرح بھاگ کھڑے ہوئے کہ انہوں نے اپنا سامان بھی چھوڑا اور مردوں کو بھی اٹھا نہ سکے اور قید ہونے والوں کی خبر بھی نہ لی گویا ان سب کو اپنی اپنی پڑگئی اور کوئی بھی دوسرے کے بارے میں کچھ سوچ نہ سکا۔ اس طرح اس ایک ہی آیت میں پانچ مختلف قسم کے انعامات کا ذکر فرمایا گیا اور ان میں سے ہر ایک انعام دوسرے سے بڑھ کر تھا۔
Top