Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 17
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ١۪ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى١ۚ وَ لِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ : سو تم نے نہیں قتل کیا انہیں وَلٰكِنَّ : بلکہ اللّٰهَ : اللہ قَتَلَهُمْ : انہیں قتل کیا وَ : اور مَا رَمَيْتَ : آپ نے نہ پھینکی تھی اِذْ : جب رَمَيْتَ : آپ نے پھینکی وَلٰكِنَّ : اور بلکہ اللّٰهَ : اللہ رَمٰى : پھینکی وَلِيُبْلِيَ : اور تاکہ وہ آزمائے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مِنْهُ : اپنی طرف سے بَلَآءً : آزمائش حَسَنًا : اچھا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
پھر کیا تم نے انہیں (میدان جنگ میں) قتل کیا ؟ نہیں اللہ نے کیا اور جب تم نے مٹھی بھر کر پھینکی تو تم نے نہیں پھینکی تھی اللہ نے پھینکی تھی اور یہ اس لیے ہوا تھا تاکہ اس کے ذریعہ ایمان والوں کو ایک بہتر آزمائش میں ڈال کر آزمائے بلاشبہ اللہ سننے والا علم رکھنے والا ہے
میدان بدر میں کفات کا قتال جو مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ دراصل اللہ کا قتال تھا : 24: میدان بدر کی طرف نکلنے کے حالات تم نے پڑھے۔ آپ کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ وہ ہالات کرنے نازل تھے اور قرآن کریم نے یہ وضاحت فرمائی کہ بعض مسلمان اس بات کو بہت ہر بھاری سمجھ رہے تھے اور باوجود مسلمان ہونے کے اس وقت ان کی حالت ایسی تھی گویا وہ موت کی طرف چلائے جا رہے ہیں اور بعض وہ بھی تھے جو صرف اس جماعت کی طرف جانا چاہتے تھے جو تجارتی قافلہ کی جماعت تھی پھر نبی اعظم و آخر ﷺ اللہ کے حکم سے ان کو میدان بدر میں کفار کے مقابلہ کے لیئے لے آئے اور وہاں پہنچ کر ان کو خوشخبری پر خوشخبری سنائی اور یہ سارے واقعات اللہ کے حکم سے اور اس کی مرضی سے ہوئے۔ پھر میدان کرار زار میں باقاعدہ جنگ لڑنے سے پہلے ہی اللہ نے حالات کو بدل دیا اور سارے مسلمان ہر لحاظ سے مطمئن ہو کر لڑے اور اللہ کی خاص مدد و نصرت نے ان کے قدم اس طرح جما دیئے کہ کفار بھاگنے پر مجبور ہوگئے اور انجام کار بھاگ کر انہوں نے جان بچائی اس طرح فتح عظیم جب مسلمانوں کو حاصل ہوئی اور وہ میدان جنگ سے کامیاب و کامران جب واپس لوٹے تو واپس آکر وہ آپس میں جب ایک دوسرے سے گفتگو کرتے اور خصوصاً ان لوگوں سے جو اس وقت شریک جنگ نہ ہو سکے تے تو اپنے کار نامے ایک دوسرے کو اور ان لوگوں کو سناتے اور فطرت انسانی کے مطابق اس میں مبالغہ ہونے لگا اور ایک دوسرے سے بڑھ کر بیان بازی شروع ہوگئی اس وقت اللہ تعالیٰ نے زیر آیت نازل فرمائی اور ان سے گویا استفسار پوچھا کہ ” کیا تم نے ان کو قتل کیا ؟ “ اور پھر خود ہی ان کو اس سوال کا جواب بھی سمجھایا کہ نہیں تم نے ان کو نہیں قتل کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا۔ “ اس جملہ کا اصل مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو ! تم اپنی سعی و عمل پر ناز نہ کرو بلکہ اپنی حالت اصل پر غور کرو جب تم مدینہ سے نکالے گئے تھے اس وقت تمہاری حالت کیا تھی ؟ اھچی طرح سمجھ لو کہ جو کچھ ہوا وہ صرف تمہاری محنت و کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد کا ثمرہ تھا جو دشمن تمہارے ہاتھوں قتل ہوئے ان کو در حقیقت تمت نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے قتل کیا اس لئے کہ اللہ نے تمہارے بگڑے ہوئے حالات کو سنوار دیا اور زمین و آسمان تمہاری مدد کرنے لگے وہ اس طرح کہ بارش کا برسنا گویا آسمان کی مدد تھی اور زمین کا بارش سے درست ہوجانا گویا زمین کی مدد تھی اور فرشتوں کی مدد سے تمہاری اسپرٹ کو کئی چند کردیا۔ آج کل اس ترقی کے زمانہ میں بھی فن جنگ میں جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ سپاہیوں کی اسپرٹ یعنی معنوی قوی درست رکھے جائیں۔ اس جگہ اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا اور بتادیا کہ صرف اس بات نے کہ پانی کی ضرورت باقی نہ رہے اور ریت میں دھنسنے کا خطرہ جاتا رہا اور قدم زمین پر اچھی طرح جم گئے اور نہا دھو لینے کی وجہ سے جسم میں تازگی آگئی ان باتوں نے ان لوگوں کے اندر جس درجہ خود اعتمادی اور سرگرمی پیدا کردی اس کا اندازہ صرف اہل نظر ہی کرسکتے ہیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات قدرتی حوادث کا ایک معمولی سا واقعہ بھی فتح و شکست کا فیصلہ کردیتا ہے۔ جنگ واٹرلو کے تمام مورخین متفق ہیں کہ اگر 17 ، 18 جون 1815 ھ کی درمیان رات میں بارش نہ ہوتی تو یورپ کا نقشہ بدل گیا ہوتا کیونکہ اس صورت میں نپولین کو زمین خشک ہونے کے باعث بارہ بجے تک انتظار نہ کرنا پڑتا وہ سویرے ہی لڑائی شروع کردیتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ” بلوشر “ کے پہنچنے سے پہلے ” ویلنگٹن “ کو شکست ہوگئی ہوتی۔ واٹر لو میں اگر بارش نہ ہوتی تو یورپ کا سیاسی نقشہ بدل جاتا اگر بدر میں بارش نہ ہوتی تو پھر کیا ہوتا ؟ تمام کرہ ارض کی ہدایت و سعادتکا نقشہ الٹ جاتا جیسا کہ خود نبی اعظم و آخر ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ” اللھم ان تھلک ھذہ العصابۃ فلا تعبد فی الارض “ اے اللہ ! اگر خدام حق کی یہ چھوٹی سی جماعت آج ہلاک ہوگئی تو کرہ ارض پر تیرا سچا عبادتت گزار کوئی نہیں رہے گا۔ اے پیغمبر اسلام ﷺ ! آپ نے جو مٹی پھینکی تھی وہ بھی آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھی : 25: پہلا خطاب عام مسلمانوں سے تھا کہ ” تم نے نہیں بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا تھا “ اور اس جملہ میں خود نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے آپ ﷺ کو بھی اس ساری کامیابی کی طرف سے اپنی طرف نسبت دینے سے روک دیا کہ ” وہ مٹی جو آپ نے میدان کار زار میں مشرکوں کی طرف پھینیا تھی وہ آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھی “ کیونکہ اللہ ہی نے ان سب کافروں اور مشرکوں کی آنکھوں میں پہنچا دی جس سے وہ سراسیمہ ہو کر بھاگ نکلے وہ گویا آپ کے پھینکنے کا اثر نہیں تھا بلکہ حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ صورت پیدا فرمادی مار میت اذر میت گفت حق۔ کار مابر کار ہا دارد سبق جوئندہ یا بندہ ہوتا ہے اس آیت میں غور کیا جائے تو مسلمانوں کے لئے جہاد کی فتح و کامیابی سے زیادہ قیمتی یہ ہدایت تھی جس نے ان کے ذہنوں کو اسباب سے پھیر کر مسبّب الاسباب سے وابستہ کردیتا اور اس کے ذریعہ سے اس فخر و عجب کی خرابی سے ان کو بچالیا جس کے نشہ میں عموماً فاتح اقوام مبتلا ہوجایا کرتی ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ بھی بتادیا کہ فتح و شکست ہمارے حکم کے تابع ہیں اور ہماری فتح و نصرت ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو اطاعت گزار ہوں اور کسی بھی اچھے کام کو وہ اپنا کام سمجھ کر اترانے نہ لگیں بلکہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد اللہ کا شکر ادا کریں اور پہلے سے بھی زیادہ فرمانبرداری اختیار کرلیں۔ گزشتہ دونوں باتوں میں ایک اعجازی رنگ ہے اس لئے بھی ان کی نسبت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہونا چاہئے تھی اور یہی ہوا تین سب مسلمانوں کا مقابلہ ایک ہزار کے ساتھ تھا وہ اتنے لوگوں کو کس طرح قتل کرسکتے تھے اور ایک مٹھی مٹی سارے لشکر کفار کی آنکھوں میں کیسے پہنچ سکتی تھی ؟ فرمایا یہ بات اللہ تعالیٰ پر کوئی مشکل نہیں ہے وہ ہرچیز پر غالب ہے اور جس چیز سے جو کام لینا چاہتا ہے لے لیتا ہے اور کوئی چیز اس کے حکم سے باہر نہیں بلکہ ہرچیز اس کے لئے ایک ہی طرح کی فمانبردار ہے اور جس جس کے لئے جو ضابطہ مقرر کیا ہے وہ اس سے کبھی انحرات نہیں کرتا۔ یہ گویا ایمان والوں کے لئے ایک آزمائش تھی اور وہ جس طرح چاہتا ہے اپنے بندوں کی آزمائش کرلیتا ہے وہ چاہے تو مصیبت اور شکست بھی ڈال کر امتحان لے لے اور چاہے تو راحت و دولت اور فتح عطا فرما کر امتحان کرلے۔ اس دفعہ اس نے چاہا کہ نہتوں سے ہتھوں کو تی تیغ کرا کر نہتوں کی آزمائش کرے اور اس نے اس طرح امتحان کرلیا اور کامیاب ہونے والوں کو ڈینگیں نہیں مارنا چاہئے بلکہ کامیابی عطا کرنے والے کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس کو فخر و ناز کبھی پسند نہیں آیا اور پھر انسان آخر کیوں فخر و ناز کرے اور وہ بھی اللہ کے سامنے جہاں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس واقعہ میں مسلمانوں کے لئے بےانداز سبق موجود ہیں جو اس جگہ گنائے نہیں جاسکتے بلکہ ہر مسلمان کا ذاتی حق ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ پر غور و فکر کرے اور وہاں سے جو کچھ حاصل ہو اس کے مطابق زندگی بسر کرے۔
Top