Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 20
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ : نزدیک اللّٰهِ : اللہ الصُّمُّ : بہرے الْبُكْمُ : گونگے الَّذِيْنَ : جو کہ لَا يَعْقِلُوْنَ : سمجھتے نہیں
یقینا اللہ کے نزدیک سب سے بدتر حیوان وہ (انسان) ہیں جو بہرے گونگے ہوگئے جو کچھ بھی سمجھتے نہیں
اللہ کے نزدیک سب سے برے کون لوگ ہیں ؟ وہی جو سمجھتے نہیں 31: لَا یَعْقِلُوْنَ وہ جو عقل سے کام نہیں لیتے وہ کون ہیں ؟ وہ وہی ہیں جو بہرے اور گونگے ہیں اور وہ وہی ہیں جو انسان کہلانے کے باوجود اس دنیا کے سارے کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر ہیں۔ کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے۔ افسوس ہے ان پیشوایان مذہب پر جو ان آیات کریمات کے پڑھنے کے باوجود پھر فتویٰ یہی دیتے ہیں کہ ” مذہب میں عقل کو دخل نہیں “ جب کہ قرآن کریم بار بار ارشاد فرمارہا ہے کہ مذہب ہے ہی صرف ان لوگوں کے لئے جن کے پاس عقل ہے اور وہ عقل سے کام لیتے ہیں اور جو لوگ عقل و فکر سے کام نہیں لیتے وہ تو انسانیت کے دائرہ ہی سے خارج ہیں اگرچہ وہ شکل و صورت کے لحاظ سے انسان ہی کہلاتے ہوں کیونکہ ہر وہ شخص جو فاطر العقل ہو وہ عقل جیسی عزیز چیز کو کھو کر شکل و صورت کے لحاظ سے نہیں بدل جاتا بلکہ شکل و صورت کے لحاظ سے وہ انسان نظر آنے کے باوجود موفوع القلم ہوجاتا ہے اور ایک حیوان اور اس میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ ہم کو تسلیم ہے کہ آج دنیا میں جتنے مذاہب موجود ہیں ان سب میں یہ بات تلقین کی جاتی ہے کہ ” مزہب میں عقل کو دخل نہیں “ لیکن اسلام قطعاً اس تلقین کے خلاف ہے۔ بلاشبہ پیشوایان اسلام کی اکثریت کی زبان پر بھی یہ فقرہ آتا ہے لیکن کوئی پیشوا اس کی دلیل دین اسلام سے نہیں پیش کرسکتا بلکہ جو بھی کہتا ہے اور جو بھی کہے گا مذاہب کا مختصر ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ جملہ کیوں کہا ؟ اس لئے کہ یہی وہ جابرانہ حکم ہے جس کی بدولت مذہب ہر قسم کی تحقیقات اور اجتہادات سے مطمئن رہتا ہے اور ان میں سے کوئی چیز بھی اس کی جناری کو کم نہیں کرسکتی۔۔ اس کا اثر ہے کہ ایک شخص منطق و فلسفہ اور ریاضیات میں سینکڑوں عجیب و غریب ایجادات کرتا ہے اور ارسطو و افلاطون کی غلطیاں نکالتا ہے لیکن جب اس کے سامنے اس مسئلہ کا ذکر آتا ہے کہ ” ایک تین ہیں اور تین ایک “ تو اس کی نقادی اور نکتہ سنجی بالکل کند اور بیکار ہوجاتی ہے۔ اس کا اثر ہے کہ سقراط اتنا بڑا فلسفی ہو کر جان دینے کے وقت وصیت کرتا ہے کہ فلاں بت پر میں نے نذر چڑھانے کی جو منت مانی تھی وہ پوری کی جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام مذاہب میں سینکڑوں حکماء و علماء پیدا ہوتے ہیں لیکن مذہب کے لغو سے لغو عقیدہ کی نسبت بھی کبھی ان کو شک پیدا نہیں ہوتا۔ عقل کی اس بیکاری سے صرف یہ نقصان نہیں پہنچتا کہ جو لغو عقیدہ ایک دفعہ قائم کرلیا گیا تھا وہ اپنے حال میں قائم رہتا ہے بلکہ توہمات اور عجائب پرستی کا زور روز بروز بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ چند روز کے بعد مذہب کے عمدہ عقائد بھی ان توہمات کے ہجوں میں چھپ جاتے ہیں اور مذہب ہمہ تن عجائبات اور ناممکنات کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ یہی چیز ہے جس نے دنیا کے آزاد خیالوں کو مذہب سے متنفر کردیا اور دنیا کے فلاسفروں نے جو پیش گوئیاں کی ہیں کہ عنقریب تمام مذاہب برباد ہوجائیں گے تو اس کی بھی اصل وجہ یہی ہے کہ مذحب عقل کو برباد کرنا چاہتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ خود برباد ہوجائے۔ یہی لوگ یہ لکھتے ہیں کہ اگر بغیر خود غرضی اور وہم پرستی کے اس بات کا پتہ لگائیں کہ دنیا میں آج تک قدر مادی ، دماغی اور اخلاقی ترقیاں ہوئی ہیں ان کا اصل سبب کیا ہے ؟ تو صرف یہ جواب ہے کہ ” عقل کا جبر کے شکنجہ سے نجات پانا “ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسلام کی تلقین بھی یہی ہے ؟ دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے یہودیوں ، عیسائیوں ، بت پرستوں اور ملحدوں کو سینکڑوں جگہ مختلف طریقوں سے عقائد اسلام کی دعوت دی ہے لیکن کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں فرمایا کہ تم تقلید ان عقائد کو مان لو بلکہ ہر جگہ اور ہر موقع پر اجتہاد اور غور کے ذریعہ سے ان کو منوانا چاہا ہے اور تقلید پرستی کی سخت برائی کی ہے اور مخالفین اسلام کو سب سے بڑا الزام جو دیا ہے وہ یہ ہے کہ ” آسمان و زمین میں کس قدر ان گنت نشانیاں ہیں لیکن یہ لوگ ان پر سے گزر جاتے ہیں اور ان کی طرف رخ نہیں کرتے۔ “ (یوسف 12) مزید تفصیل دیکھنا ہو تو تفسیر عروۃ الوسقیٰ جلدسوم میں سورة الاعراف کی آیت 179 کا مطالعہ کریں۔
Top