Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 43
اِذْ یُرِیْكَهُمُ اللّٰهُ فِیْ مَنَامِكَ قَلِیْلًا١ؕ وَ لَوْ اَرٰىكَهُمْ كَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَ لَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ سَلَّمَ١ؕ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اِذْ : جب يُرِيْكَهُمُ : تمہیں دکھایا انہیں اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَنَامِكَ : تمہاری خواب قَلِيْلًا : تھوڑا وَلَوْ : اور اگر اَرٰىكَهُمْ : تمہیں دکھاتا انہیں كَثِيْرًا : بہت زیادہ لَّفَشِلْتُمْ : تو تم بزدلی کرتے وَلَتَنَازَعْتُمْ : تم جھگڑتے فِي الْاَمْرِ : معاملہ میں وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ سَلَّمَ : بچا لیا اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : دلوں کی بات
یہ وہ دن تھا کہ اللہ نے تجھے خواب میں ان کی تعداد تھوڑی کر کے دکھائی اور اگر انہیں بہت کر کے دکھاتا تو تم ضرور ہمت ہار دیتے اور اس معاملہ میں جھگڑنے لگتے اللہ نے تمہیں اس صورتحال سے بچالیا یقین کرو جو کچھ انسان کے سینوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس کے علم سے پوشیدہ نہیں
وہی ہے جس نے کفار کی تعداد تھوڑی کر کے دکھائی اگر زیادہ دکھا دیتاتو کیا ہوتا ؟ 59: یہ گویا اللہ تعالیٰ کی مخفی تدبیروں میں سے ایک تدبیر تھی کہ ” اس نے تجھے اے پیغمبر اسلام ! خواب میں ان کی تعداد تھوڑی کر کے دکھائی اور اگر انہیں بہت کر کے دکھاتا تو مسلمانو ! تم ضرور ہمر ہار دیتے اور اس معاملہ میں جھگڑنے لگتے اور اللہ نے تم کو اس صورت حال سے بچا لیا۔ یقین کرو کہ جو کچھ انسان کے سینے میں چھپا ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علم سے پوشیدہ نہیں۔ “ باقاعہ جنگ شروع ہونے سے قبل ہی اللہ نے نبی اعظم و آخر ﷺ کو کو اب میں کفار کی تعداد تھوڑی دکھائی اور نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو قلیل التعداد جماعت ہی کی حیثیت سے ان کو اپنے خواب کے باعث بیان کیا اور ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ یہ قلیل التعداد گروہ مسلمانوں سے شکست کھا جائے گا۔ آپ ﷺ نے جو دیکھا وہی لوگوں کے سامنے بیان کیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ معاملہ اس لئے کیا کہ اگر ان کو کثیر تعداد ہی میں دکھایا جاتا یا جتنے کہ وہ تھے اتنے ہی دکھائے جاتے تتو بھی وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تین گنا تھے۔ آپ ﷺ بھی لوگوں تتک وہی بات پہنچاتے جس کا اثر یقیناً مسلمانوں سے کمزور لوگوں پر اچھا نہ پڑتا اور وہ ہمت ہار بیٹھتے عین ممکن تھا کہ رزم گاہ میں اترنے پر ہی اختلاف ہوجاتا۔ اس تدبیر نے گویا مسلمانوں کے دلوں میں جو کچھ کمزوری تھی وہ بھی ختم کردی اور یہ ایک فطرتی بات ہے۔ ہاں ! اس سے بعض لوگوں نے جو یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بعض اوقات انبیائے کرام کو بھی خواب میں کوئی چیز خلاف واقعہ دکھا دی جاتی ہے جیسا کہ اس مواقعہ پر ہوا ان کا یہ استدلال بالکل صحیح نہیں۔ رویا میں جو کچھ دکھایا گیا وہ بطور نتیجہ کے تھا اور نتیجہ اس خواب کا وہی نکلا جو خواب دیکھتے ہی بیان کردیا۔ بلاشبہ ظاہر نظر میں دیکھنے کے لحاظ سے کفار کی تعداد مسلمانوں سے تگنی تھی لیکن معنوی اور اخلاقی اعتتبار سے اس کی حیثیت بہت کم تھی اور ان کی یہی معنوی قلت خواب میں قلت تعداد کی شکل میں دکھائی گئی۔ رویا کا یہی ایک پہلو وہ ہوتا ہے جس کے لئے اس کی تعبیر کی ضرورت پیش آتی ہے اگر وہ بات جو خواب میں دکھائی جائے من و عن وہی ہو تو پھر اس کی تعبیر کیوں کر ہو سکتی ہے اور پھر اس کو آخر خواب کیوں کہیں گے ؟ خواب اسی لئے تو خواب ہے کہ اس میں دیکھی گئی بات کی تعبیر اس طرح کی جاتی ہے کہ اس پر فٹ آجاتی ہے۔ مثلاً یوسف (علیہ السلام) نے خواب دیکھا اور اس میں چاند سورج اور ستارے سجدہ ریز ہوتے دکھائے گئے اور اس کی تعبیر بھائیوں اور والدین کا ایک مدت کے بعد ایک خاص نوعیت سے ملنا بیان کیا گیا۔ اسی طرح خود نبی کریم ﷺ کے دوسرے بہت سے خوابات کا ذکر احادیث میں بیان ہوا ہے اس لئے اس بات کو جو خواب میں آپ ﷺ کو نظر آئی خلاد واقعہ نہیں کہی جاسکتی اور اس کو خلاف واقعہ کہنا سراسر جہالت اور ناسمجھی ہے۔ پھر یہ بھی کہ قلیل کا لفظ عربی زبان میں معنوی اعتبار سے بےوزن اور بےحقیقت چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ یہ شعر ہے فان اک فی شرار کم قلیلا۔ فانی فی خیار کم کثیر اگر میں تمہارے اشرار کی نگاہوں میں کم رتبہ ہوں تو کچھ غم نہیں تمہارے اخیار کی نگاہوں میں میرا بڑا رتبہ ہے۔ یہ اشارہ اس جگہ محض اس لئے کرنا پڑا کہ جن لوگوں نے اس بات کو جو خواب میں دکھائی گئی تھی خلاف حقیقت سمجھا ہے اور بیان کیا ہے وہ کسی کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ ہوں اس لئے کہ وہ خود ٹھوکر کھاچکے ہیں خواہ یہ ٹھوکر ان کی کسی اندرونی بیماری کا باعث ہے یا فی الواقع ان کی تفہیم ہی نہیں ہوسکی کہ خواب کے مشاہدہ اور عام مشاہدہ میں کوئی فرق بھی ہوتا ہے جس کے باعث ہے یا فی الواقع ان کی تفہیم ہی نہیں ہوسکی کہ خواب کے مشاہدہ اور عام مشاہدہ میں کوئی فرق بھی ہوتا ہے جس کے باعث اس کو خواب کا مشاہدہ کہا جاتا ہے اور انبیائے کرام کا خواب بلاشبہ وحی ہوتا ہے یا ان کا خواب بھی وحی ہی کی ایک قسم ہے تاہم اس کی تعبیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے ان کے خواب کی تعبیر کی جاتی رہی اور قرآن کریم نے بھی انبیائے کرام کے کتنا خواب کا ذکر کیا ہے اور خود نبی کریم ﷺ کا خواب ہجرت وغیرہ۔ اس جگہ صرف اشارہ دیا ہے۔ تفصیل خواب کی انشاء اللہ کسی مقام پر مزید بیان ہوگی۔ زیر نظر آیت میں لَّفَشِلْتُمْ اورو لَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ کے الفاظ آئے ہیں کہ ” تم ضرور ہمت ہار بیٹھتے “ اور ” اس معاملہ میں تم آپس میں جھگڑنے لگتے “ یہ خطاب اگرچہ عام ہے لیکن اس سے لازم نہیں آتا کہ مسلمانوں کے سارے گروہ کی حالت ایسی ہوجاتی البتتہ جماعتی زندگی میں پوری جماعت کے اندر کوئی فرد یعنی جماعت کے لحاظ سے اس کا کوئی عضو کمزور بھی ہوتا ہے اور یہ بات یقیناً اس وقت بھی تھی پھر جس طرح کسی ایک عضو میں خرابی کے باعث پورا جسم بےچین ہوجاتا ہے یہی صورت حال جماعت ت کی ہوتیت ہے یہی وجہ ہے کہ مخاطب ساری جماعت ہی کو کیا گیا ہے اور جماعت بھی اس حقیقت کو سمجھتی اور پہچانتتی ہوتی ہے کہ یہ کمزوری کہاں ہے اور وہ فرد یا افراد جماعت بھی جن کے اندر کمزوری ہوتی ہے اس بات کو سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ بات تکس سے کی جارہی ہے اور آپ بھی یہ سمجھ لیں کہ سب کو مخاطب کیوں کیا گیا ہے ؟
Top