Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 44
وَ اِذْ یُرِیْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْۤ اَعْیُنِكُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُكُمْ فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب يُرِيْكُمُوْهُمْ : وہ تمہیں دکھلائے اِذِ : جب۔ تو الْتَقَيْتُمْ : تم آمنے سامنے ہوئے فِيْٓ : میں اَعْيُنِكُمْ : تمہاری آنکھ قَلِيْلًا : تھوڑا وَّ يُقَلِّلُكُمْ : اور تھوڑے دکھلائے تم فِيْٓ : میں اَعْيُنِهِمْ : ان کی آنکھیں لِيَقْضِيَ : تاکہ پورا کردے اللّٰهُ : اللہ اَمْرًا : کام كَانَ : تھا مَفْعُوْلًا : ہوکر رہنے والا وَ : اور اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ تُرْجَعُ : لوٹنا (بازگشت) الْاُمُوْرُ : کام (جمع)
اور پھر جب تم دونوں فریق ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے اور اللہ نے ایسا کیا تھا کہ دشمن تمہاری نظروں میں تھوڑے دکھائی دیتے اور یہ اس لیے کیا تھا تاکہ جو بات ہونے والی تھی اسے کر دکھائے اور سارے کاموں کا دارومدار اللہ ہی کی ذات پر ہے
عام مشاہدہ کے دیکھنے میں بھی بعض اوقاتت کثیر قلیل یا قلیل کثیردکھائی دے جاتا ہے : 60: زیر نظر آیتت میں دونوں جماعتوں کے آمنے سامنے ایک دوسرے کو دیکھنے کی صورت حال کا بیان ہے فرمایا تو خواب تتھا لیکن جب تم دونوں جماعتوں یعنی مسلمانوں کی جماعت اور کفار مکہ کی جماعت کا آمنا سامنا ہوا تتو اس وقت بھی دونوں جماعتیں ہی ایک دوسرے کو قلیل یعنی تھوڑا ہی دیکھ رہی تھیں اگرچہ مسلمانوں کی جماعت تو فی الحقیقت تھوڑی ہی تھی لیکن کفار کی بڑی جماعت کو بھی مسلمان جس جگہ سے دیکھ رہے تھے وہ ان کو تھوڑے ہی نظر آرہے تھے اور اس میں وہ ایمانی قوت بھی اپنا کام دکھا رہی تھی جو ان کو رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے سنائی گئی تھی اور کچھ جگہ کا نقشہ بھی ایسا ہی تھا کہ جہاں فریقین کی صفیں بنائی گئیں تو دونوں طرف کی صفوں میں کھڑے لوگ اپنے مقابل کے لوگوں کو تھوڑا ہی دیکھ رہے تھے اور اس کا فائدہ یہ بتایا گیا کہ دونوں میں سے کوئی فریق بھی ایک دوسرے سے ٹتکر لینے میں خوف نہ کھائے اور وہ معرکہ ہو کر رہے جو حق و باطل کے درمیان فیصلہ کردے اور جس کا واقعہ ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاں طے ہوچکا ہے۔ کفار کی نگاہوں میں مسلمانوں کا کم نظر آنا تو اس لئے تتھا کہ ان کی ظاہر بیں آنکھیں مسلمانوں کی صرف عددی حیثیت میں ملاحظہ کررہی تھیں اور ان لوگوں کی اخلاقی اور روحانی قوت و حیثیتت ان کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہی حالانکہ یہی مسلمانوں کی قلیل جماعت ان کو معرکہ کار زار گرم ہونے کے بعد ان کو ایک طوفان کی شکل میں نظر آنے لگی اور وہ ان کے سامنے اس طرح سے بھاگنے لگے کہ گویا ان کے پیچھے ایک لشکر جرار لگ گیا ہے اور ان کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں مل رہی اور مسلمانوں کو ان کی عددی حیثیت اس لئے کم نظر آنے لگی کہ ان کی معنوی حیثیت اللہ نے کھول کر ان کے سامنے رکھ دی تھی اور اس کو بےنقاب کردیا گیا تھا اور بلاشبہ نگاہ بھی بہت بڑی حد تک دل کے تابع ہوتی ہے اگر دل میں حوصلہ اور امنگ ہو تو قوت ایمانی اور قوت روحانی و افرہو نگاہ بھی بہت بڑی حد تک دل کے تابع ہوتی ہے اگر دل میں حوصلہ اور امنگ ہو تو قوت ایمانی اور قوت روحانی و افر ہو تو اور جذبہ بھی صادق ہو تو شیر بھی بلی نظر آنے لگتا ہے۔ اس کی اصلی مشاہدہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو کسی میدان کے پہلوان ہوں۔ ہاں ! یہ باتیں فقط سمجھانے سے سمجھ نہیں آسکتیں اور جب تک انسان خود ایسی حالت سے دو چار نہ ہو اس کی حقیقت اس کی آنکھوں سے اوجھل ہی رہتی ہے۔ اچھا ساری بحث کو الگ کر کے صرف یہ دیکھو کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلمان تعداد میں تیسرا حصہ تھے ؟ اور پھر یہ بات کہ کفار تعداد میں مسلمانوں سے تین گنا تھے ؟ یہ صحیح ہے تو پھر غرو کرو کہ شکست کس کو ہوتی ؟ کم تعداد والوں کو یا زیادہ تعداد والوں کو ؟ ظاہر ہے زیادہ تعداد کے لوگوں نے میدان ہار دیا اور پھر نہ صرف یہ کہ ان کے لوگ صرف مارے ہی گئے نہیں زندہ پکڑ کی قیدی بھی بنائے گئے اور پھر یہ بھی کہ قید ہوناے لواں و میں بھی بڑے بڑے جنگجو لوگ تھے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا ؟ ہم مسلمانوں کے نزدیک یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوا کہ اللہ کے ہاں ایسا ہونا طے تھا اور اس نے اس طرح ہونے کی اطلاع پہلے ہی نبی رحمت ﷺ کے ذریعہ سے مسلمانوں تک پہنچا دی تتھی اور جو جو سبب مسلمانوں کی فتح اور کفار کی شکست کا ہوا ان سارے اسباب کا اصلی مسبّب خود اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس تھی جو فی الحقیقت مسبّب الاسباب ہے۔ پھر جب انسان کی ذرا نظر اس مسبّب الاسباب پر رہنے کی بجائے کسی دوسری طرف جا پڑے تو وہی مسبّب الاسباب اس کوتاہی کو سبب قرار دے کر گاڑی پیچھے کو بھی پھیر دیتا ہے جس سے بڑے بڑے بہادر چت ہوجاتے ہیں اور بہادری کا سارا زعم دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ زیر نظر آیت کے آخر پر ارشاد فرمایا : وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ (رح) 0044 بالاخر سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں اور ہر خیر و شر اس کی تخلیق ہے کیونکہ وہ نتیجہ کا نام ہے اور ہر عمل کے ساتھ اس نے نتیجہ لازم کردیا ہے عمل خیر ہوگا تو نتیجہ شر نہیں ہوسکتا اور اسی طرح عمل شر ہے و نتیجہ کبھی خیر نہیں ہوسکتا۔ نیز وہی ہے جو اپنے قانون کے مطابق قلت اور کثرت پر اور قوت کو ضعف پر غلبہ دے کر دکھاتا آیا ہے اور دکھا رہا ہے اور دکھاتا رہے گا۔ خاک و باد و آب و آتش بندہ اند۔ بامن و تو مردہ باحق زندہ اند
Top