Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 45
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والے اِذَا : جب لَقِيْتُمْ : تمہارا آمنا سامنا ہو فِئَةً : کوئی جماعت فَاثْبُتُوْا : تو ثابت قدم رہو وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے مسلمانو ! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو لڑائی میں ثابت قدم رہو اور زیادہ سے زیادہ اللہ کو یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو
مسلمانوں کو ہدایت کہ کسی میدان میں مڈبھیڑ ہوجائے تو اللہ کو یاد کرو : 61: اب مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تمہاری دنیوی کامیابی اور فتح دی کا اور اخروی فلاح و نجات کا نسخہ اکسیر یہ ہے کہ میدان جنگ میں جب تمہارا آمنا سامنا کی کفر کی جماعت سے ہوجائے تو ثابت قدم رہنا اور جم کر یعنی ڈٹ کر لڑنا اور گھبراہٹ کو قریب نہ آنے دینا کیونکہ جب تک دل مضبوط اور قائم رہے جوارح اپنا کام کرتے ہیں اور اگر انسان دل ہار بیٹھے تو اعضاء ثابت نہیں رہ سکتے اور یہ چیز ایسی ہے جس کو ہر مومن و کافر جانتا ہے اور دنیا کی ہر قوم اپنی جنگوں میں اس کا اہتمام کرتی ہے کیونکہ اہل تجربہ سے یہ مخفی نہیں کہ میدان جنگ کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ کامیاب ہتھیار ثابت قلب و قدم ہی ہے دوسرے سارے ہتھیار اس کے بغیر بےکار ہوجاتے ہیں اور ایک بات مومنوں کے لئے مخصوص ہے اور وہ ” ذکر اللہ “ ہے اور یہی وہ معنوی ہتھیار ہے جس سے مومن کے سوا عام دینا غافل ہے۔ پوری دنیا جنگ کے لئے بہترین اسلہہ اور نئے سے نیا سامان مہیا کرنے اور فوج کے ثابت قدم رکھنے کی تو پوری تدبیریں کرتی ہے لیکن مسلمانوں کے اس روحانی اور معنوی ہتھیار سے بالکل بیخبر اور نا آشنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر میدان میں جہاں مسلمانوں کا مقابلہ ان ہدایات کے مطابق کسی قوم سے ہوا مخالف کی پوری طاقت اور اسلحہ اور سامان کو اس نے بیکار کر کے رکھ دیا۔ ذکر اللہ کی اپنی ذاتی اور معنوی برکات تو اپنی جگہ ہی ہیں لیکن ثابت قدمی کے لئے اس سے بہتر نسخہ اور کوئی نہیں ہے اللہ کی یاد اور اس پر پورا پورا اعتماد وہ طاقت ہے جو ایک انسان کو پہاڑ سے ٹکرا جانے پر آمادہ کردیتی ہے اور پھر کیسی مصیبت اور پریشانی ہو اللہ کی یاد سب کو ہوا میں اڑا دیتی ہے اور انسان کے دل کو مضبوط اور قدموں کو جما دیتی ہے۔ دنیا میں جنگ و قتال ہی ایک ایسا وقت ہے کہ کوئی انسان بھی عادتاً اس وقت کسی کو یاد نہیں کرتا سب کو اپنی اپنی فکر پڑی ہوتی ہے اسلام نے ایسے نازک وقت میں بھی انسان کو اللہ کی یاد کی طرف رغبت دلا کر ثابت کردیا کہ مسلمان کا کوئی سانس بھی اللہ کی یاد کے بغیر نہیں آنا چاہئے اور میدان جنگ میں پہنچ کر تو اس ذکر میں مزید اضافہ ہوجانا ضروری ہے لیکن افسوس کہ مسلمانوں کو آج تسبیح کے دانوں پر اللہ اللہ کے ورد کے سوا کچھ یاد ہی نہیں کہ ذکر اللہ کیسے ہوتا ہے اور وہ کیوں کر کیا جاتا ہے ؟ اور ملوئیت نے ان کو تلوار ، تیر وتفنگ اور گولہ و بارود اور ایٹن بم کے ساتھ ذکر اللہ ملانے کا فلسفہ صدر اول کے بعد آج تک نہیں سمجھایا۔ ہاں ! ہاں ! ان ساری چیزوں سے بھر پور کام لینے کے ساتھ ساتھ اللہ پر بھروسہ ہی اللہ کا صحیح معنوں میں ذکر ہے۔ میدان بدر پر نگاہ ڈال کر ذکر اللہ کا مفہوم سمجھ لیا ہوتا تو آج فقط تسبیح کے دانوں پر اللہ اللہ ہی کو ذکر اللہ تصور نہ کیا جاتا۔ ملائیت کو کون سمجھائے کہ اپنے جسم کے ساتھ ایٹم بم باندھ کر کفار کے ٹینک کو اڑانے کا نام بھی ذکر اللہ اور لا الٰہ کی یہی وہ چھری ہے کہ جس دل پر پھرجائے اس دل کی صدا لا اللہ کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی اور اس کا نام تو صحیح معنوں میں ” ذکر اللہ “ ہے۔ افضل الذکر لا الٰہ الا اللہ خود نبی اعظم و آخر ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ اس آیت نے جو سبق دیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ” ثابت قدم رہو کیونکہ میدان جنگ کی ساری کامیابی اس کے لئے ہے جو آخر تک ثابت قدم رہے۔ “ اور ” نازک حالت میں بھی اللہ کی یاد کرو کیونکہ جسم کا ثبات دل کے ثبات پر موقوف ہے اور دل اس کا مضبوط رہے گا جو اللہ پر کامل ایمان رکھتا ہے۔ “
Top