Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 53
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ لَمْ يَكُ : نہیں ہے مُغَيِّرًا : بدلنے والا نِّعْمَةً : کوئی نعمت اَنْعَمَهَا : اسے دی عَلٰي قَوْمٍ : کسی قوم کو حَتّٰي : جب تک يُغَيِّرُوْا : وہ بدلیں مَا : جو بِاَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
یہ بات اس لیے ہوئی کہ اللہ کا مقررہ قانون ہے کہ جو نعمت وہ کسی گروہ کو عطا فرماتا ہے اسے پھر کبھی نہیں بدلتا جب تک کہ خود اس گروہ کے افراد اپنی حالت نہ بدل لیں اور اس لیے بھی کہ اللہ سنتا اور جانتا ہے
اللہ نے اپنے انعام کے باقی رکھنے کا ضابطہ بیان فرمادیا تاکہ لوگ اپنے کئے پر غور کریں : 72: زیر نظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام عطاء کے قائم اور باقی رکھنے کا قانون بڑء وضاحر سے بیان کردیا جس کی بات مبہم نہ رکھی کہ ” اللہ تعالیٰ جو نعمت کسی قوم کو عطا فرماتا ہے اس کو اس وقت تک نہیں بدلتاجب تک لوگ خود ہی اپنے حالات اور اعمال کو نہ بدل دیں۔ “ غور کرو کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے عطاء نعمت کے لئے کوئی ضابطہ نہیں بیان فرمایا اور نہ ہی اس لئے کوئی قید یا شرط لگائی اور نہ اس کو کسی کے اچھے عمل پر موقوف رکھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلی نعمت جو خود ہمارا وجود ہے اور اس میں قدرت خداوندی کی لامحدود حیرت انگیز نعمتیں ودیعت کی گئی ہیں اور یہ نعمتیں ظاہر ہے کہ اس وقت عطا ہوئی ہیں جب نہ ہم تھے اور نہ ہمارا کوئی عمل تھا۔ جن قوموں کا ذکر پچھلی آیات میں آیا یعنی قریش مکہ اور آل فرعون یہ لوگ اگرچہ اللہ کی نعمتیں ملنے کے وقت بھی کچھ اچھے اعمال کرنے والے نہیں تھے سب کے سب مشرک اور کافر ہی تھے لیکن انعامات الٰہی کے بعد بھی یہ لوگ اپنی بد عملیوں اور شرارتوں سے پہلے سے زیادہ تیز ہوگئے۔ ال فرعون بنی اسرائیل پر پہلے بھی ظلم و زیادتی کررہا تھا لیکن جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو رسالت الٰہی کا پیغام سنایا تو پھر بھی وہ لوگ اس ظلم سے باز نہ آئے بلکہ بنی اسرائیل کے مظالم میں کچھ اضافہ ہی کا باعث ہوئے اس لئے گویا انہوں نے اپنے حالات مزید برائی کی طرف بدل ڈالے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی نعمت کو نقمت اور عذاب سے بدل دیا۔ اس طرح قریش مکہ اگرچہ مشرک اور بد عمل تھے لین اس کے ساتھ ان میں کچھ اچھے اعمال مثلاً صلہ رحمی ، مہمان نوازی ، حجاج کی خدمت اور بیت اللہ کی تیمے کا ایک تصور موجود تھا اللہ تعالیٰ نے ان پر دین و دنیا کی نعمتوں کے دروازے کھول دیئے۔ دنیا میں ان کی تجارتوں کو فروغ دیا اور دین کے اعتوار سے وہ عظیم نعمت ان کو عطا ہوئی جو پچھلی کسی قوم کو نہیں ملی تھی کہ محمد رسول اللہ ﷺ جیسا رحمت للعالمین نبی ان میں مبعوث فرما دیا اور اللہ کی آخری اور جامع کتاب قرآن کریم ان کو دی مگر ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کی شکر گزاری اور قدر کرنے اور اس کے ذریعہ اپنے حالات کو درست کرنے کی ببجائے پہلے سے بھی زیادہ گندے کردئیے کہ صلہ رحمی کو چھوڑ کر مسلمان ہوجانے والے اپنے ہی لوگوں پر وحشیانہ مظالم کرنے لگے مہمان نوازی کی بجائے ان مسلمانوں پر آب و دانہ بند کرنے کے معاہدے کرنے لگے۔ حجاج کی خدمت کی بجائے مسلمانوں کو حرم میں داخل ہونے سے روکنے لگے۔ یہ وہ حالات تھے جن کو کفار قریش نے بدلا۔ اس کے نتیجہ میں اللہ نے اپنی نعمتوں کو ان کے لئے عذاب کی صورت میں تبدیل کردیا کہ رحمت للعالمین کو وہاں سے اٹھا کر مدینہ لا رکھا اور قریش کو دنیا میں بھی ذلیل و خوار کیا اور ان کی آخرت بھی پہلے سے زیادہ خراب ہوگئی۔ اس طرح ساری قوموں کے قصص کو ایک ایک کر کے لیتے جاؤ اور اس کا تجزیہ کر کے دیکھتے جاؤ تو تم پر یہ حقیقت بالکل واضح اور روشن ہوجائے گی کہ اللہ نے جو اصولی بات بیان فرمادی وہ ساری قوموں پر ایک جیسی فٹ آتی ہے اور اب اس قت بھی اپنے اور اپنے اردگرد کے حالات کا جائزہ لیتے جاؤ کہ اللہ نے جو انعام جس قوم ، جس گروہ پر کیا وہ بغیر کسی صلہ اور اس کے عمل کے تھا لیکن اس کے ساتھ ہی اس انعام کی حقیقت بھی ان پر واضح کی تم خود اردگرد کے لوگوں سے دیکھ کر فیصلہ کرلو کہ یہ اللہ کا انعام ہوتا ہے یا نہیں ؟ پھر جب انہوں نے اس انعام کی وہ قدر نہ کی جو کرنی چاہئے تھی تو اس انعام کو عذاب سے بدلتے بھی اس کو کوئی دیر نہ لگی جو لوگ آج بادشاہ تھے کل ان کو سولی پر لٹکا کردکھا دیا اور پھر دوسروں کے لئے ان کو عبرت درس بنادیا اور آج بھی یہ بات اسی طرح جاری وساری ہے لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو انعامات الٰہی کی قدر کر کے اس انعامات کی بارش سے مستفید ہوتے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہوتا یہی ہے کہ جس شخص پر انعام ہوا وہ پھولے نہ سمایا اور اس نے اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے اللہ کے مقابل کھڑا ہونے کی کوشش کی اور یہی سمجھا کہ اس میں میرا یہ کمال ہے اور میں نے اس طرح کر کے یہ انعام حاصل کرلیا ہے مجھے دنیا نہیں گیا بلکہ میں نے اپنی کوشش سے اس کو حاصل کیا اور پھر کوئی زیادہ دیر نہ لگی کہ اللہ نے اس کو بےبس کر کے دکھا دیا اور اپنا وہ انعام کسی دوسرے کی آزمائش بنادیا۔ لہٰذا یہ آیت کریمہ گزری ہوئی اور موجودہ قوموں کے عروج وزوال کے لیئے یہی اٹل قانون ہے جو اس میں بیان ہوا ہے جو چاہے اس کو گوش ہوش سے سنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرے اور علامہ اقبال نے جو قوموں کے عروج وزوال کا نسخہ اکیسر بتایا وہ اسی آیت سے لیا گیا ہے۔
Top