Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 54
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ١ۙ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ فَاَهْلَكْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ١ۚ وَ كُلٌّ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ
كَدَاْبِ : جیسا کہ دستور اٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والے وَ : اور الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّهِمْ : اپنا رب فَاَهْلَكْنٰهُمْ : تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں کے سبب وَاَغْرَقْنَآ : اور ہم نے غرق کردیا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے وَكُلٌّ : اور سب كَانُوْا : تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم
جیسا کچھ دستور فرعون کے گروہ اور ان کا جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں رہ چکا ہے وہی تمہارا ہوا انہوں نے اپنے پروردگار کی نشانیاں جھٹلائیں تو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کر ڈالا فرعون کا گروہ غرق کیا گیا تھا اور وہ سب ظلم کرنے والے تھے
تاکید مزید کے لئے آل فرعون اور اس کے لوگوں کی داستان کی طرف دوبارہ توجہ دلا دی : 73: یہ آیت وہی ہے جو پیچھے ایک ہی آیت سے پہلے گزر چکی یعنی آیت 52 اور 54 بالکل ایک ہی طرح کی آیت اور ایک قوم کا ذکر ہے۔ معمولی الفاظ کا فرق کر کے اس کو دوبارہ بیان کردیا اور دونوں مفہومات میں بہت زیادہ فرق پڑگیا اور دونوں کے اسباق بالکل مختلف ہوگئے اور دونوں ہی کے بیان کرنے میں اپنی اپنی جگہ ایک افادیت رکھ دی گئی۔ پہلی آیت میں اس کا بیان مقصود تھا کہ ان لوگوں کا کفر ان کے عذاب کا سبب بنا اور اس آیت کا مقصود یہ ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم پر اللہ نعمتیں مبذول کرتا ہے اور وہ اگر ان نمعتوں کی قدر نہ کرے اور اللہ کے سامنے نہ جھکے تو اللہ تعالیٰ اس کی نعمتوں کو نقمتوں اور مصیبتوں سے بدل دیتا ہے اور یہ دونوں سبب قوم فرعون اور مشرکین مکہ میں پائے گئے اور اس لئے دونوں ہی جگہ ان کا ذکر کردیا۔ امام فخر الدین رازی (رح) نے اس جگہ ایک عمدہ نکتہ بیان کیا ، فرماتے ہیں پہلی آیت میں ہے : كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے انکار کیا۔ دوسری آیت میں ہے : كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ انہوں نے اپنے رب کریم کی آیات کو جھٹلایا۔ پہلی آیت میں اشارہ ہے دلائل توحید و الوہیت کے انکار کی طرف اور دوسری میں تربیت و پرورش کی آیات کی طرف اور پھر دونوں کا طبعی نتیجہ الگ الگ بیان کردیا۔ اس طرح پہلی آیت میں : فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ 1ؕ فرمایا تھا اور اس میں فرمایا تھا : فَاَهْلَكْنٰهُمْ۠ بِذُنُوْبِهِمْ اس طرح گویا پہلے اجمال کی تفصیل ہوگئی کیونکہ پہلی آیت یہ ان کا عذاب میں پکڑا جانا بیان کیا جس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں اور دوسری آیت میں ان کے گناہوں کے باعث عذاب میں ہلاک ہونا بیان کردیا کہ ان سب قوموں کی سزا سزائے موت تھی یعنی ہم نے ان سب کو ہلاک کرڈالا۔ اگرچہ ہر قوم کی ہلاکت کی مختلف صورتیں ظاہر ہوئیں اور دونوں آیتوں میں قوم فرعون کا خصوصی ذکر کیا کیونکہ وہ خدائی کا دعویدار تھا اور اس کی قوم اس کی تصدیق کرتی تھی اور اسی طرح دوسری ساری قوموں کی ہلاکت کی صورتیں اس جگہ بیان نہیں کیں لیکن قوم فرعون کی صورت بھی بیان فرمادی کہ اس کو مع اس کی قوم کے ہم نے (بحر قلزم کی شاخ میں) غرق کردیا۔
Top