Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 55
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
بلاشبہ اللہ کے نزدیک بدترین چلنے پھرنے والے وہ ہیں جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تو یہ وہ لوگ ہیں کہ کبھی ایمان لانے والے نہیں
حقائق کو دیکھ کر ایمان نہ لانے والے چارپایوں سے بھی بدتر ہیں : 74: آیت زیر نظر کا پہلا حصہ پیچھے آیت 22 میں بھی گزر چکا اور اس کی وضاحت وہاں بیان کردی تھی۔ یہ اسلوب بیان گویا ان لوگوں کے وجود و بقا کے جواز کی نفی کر رہا ہے کہ وہ انسان جو شکل و صورت سے تو بہت بہر حال انسان نظر آتے ہیں لیکن سوچنے سمجھنے کی رمق بھی ان میں موجود نہیں تو وہ انسان کہلانے کے کب مستحق ہیں ؟ وہ تو چارپائے ہیں اور وہ بھی ایسے چار پائے شرارتی قسم کے اور برے گنے جاتے ہیں جیسے گیدڑ اور بھیڑیا۔ مطلب یہ ہے کہ انسانوں کے کسی گروہ کی قدر و قیمت اس وقت تک ہے جب تک ان میں عقل و فکر سے کام لینے کی صلاحیت ہے اور وہ اس سے کام لیں اور ظاہر ہے کہ عقل و فکر سے کام لینے والے پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات کو یقیناً قبول کریں گے کیونکہ آپ ﷺ کی تعلیمات سراسر عقل و فکر ہی تو ہیں۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ رسول اتمام حجار کا آخری ذریعہ ہوتا ہے جن کی آنکھوں کے پردے رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی نہیں اٹھتے ان کے اندھے پن کا کوئی علاج دنیا میں نہیں ہوتا اس لئے ان کا باقی رہنا بالکل بےمقصد ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو کسی کو جینے کی مہلت دی ہے وہ صرف کھانے پینے اور سونے جاگنے ہی کے لئے نہیں بلکہ سوچنے سمجھنے اور زندگی سنوارنے اور سدھارنے کے لئے دی ہے ورنہ کھانے پینے اور سونے جاگنے کے سارے کام تو چار پائے بھی کرتے ہیں پھر ایک انسان اور چارپائے میں فرق کیا رہا۔ جب مقصد حیات دونوں کا ایک ہی ہوا۔ قرآن کریم بار بار یہ بیان کرتا ہے کہ انسان وہی ہے جس میں انسانیت موجود ہے اور انسانیت عقل و فکر اور سمجھو سوچ کا نام ہے لیکن افسوس ان پیشوایان مذہب پر جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مذہب میں عقل و فکر نام کی چیز کا کوئی کام نہیں۔ ان کی اپنی عقل کا جنازہ تو نکل ہی چکا تھا لیکن انہوں نے دوسروں کی عقل و فکر کو زندہ درگور کردیا اور اسی طرح وہ دوہرے مجرم ٹھہرے جو دوگنے عذاب کے مستحق ہیں خواہ وہ امام و پیشوا اور پیرو مرشر ہی کے ناموں سے پکارے جاتے ہوں اس لئے کہ وہ عنداللہ چارپایوں سے بھی بدتر ہیں۔ ان کے اپنے دلوں میں ایمان نہیں ہے وہ دوسروں کا ایمان کی کیا تلقین کریں گے ؟ اس سبق کا خلاصہ ایک بار پھر دیکھ لو تاکہ تم انسانیت کو اچھی طرح جان سکو۔ فرمایا بدترین چارپائے وہ انسان ہیں جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن کریم کے نزدیک عقل و حواس سے ٹھیک طرح کام نہ لینا اور اندھوں کی طرح چلنا انسانیت سے گر جانا ہے اور وہ کہتا ہے کہ کفر اس اندھے پن کا نتیجہ ہے۔ پس ایمان کی راہ عقل و بصیرت کی راہ ہوئی اور کفر اندھے پن کا دوسرا نام ہوا۔
Top