Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 58
وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰى سَوَآءٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ۠   ۧ
وَاِمَّا : اور اگر تَخَافَنَّ : تمہیں خوف ہو مِنْ : سے قَوْمٍ : کسی قوم خِيَانَةً : خیانت (دغا بازی) فَانْۢبِذْ : تو پھینک دو اِلَيْهِمْ : ان کی طرف عَلٰي : پر سَوَآءٍ : برابری اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْخَآئِنِيْنَ : دغا باز (جمع)
اور اگر ایک گروہ سے تمہیں دغا کا اندیشہ ہے تو چاہیے کہ ان کا عہد انہی پر لوٹا دو اس طرح کہ دونوں جانب یکساں حالت میں ہوجائیں یاد رکھو اللہ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
الٰہی ہدایت نامہ کی دوسری ہدایت جو نبی و اعظم و آخر ﷺ کو دی گئی : 77; : فرمایا اے پیغمبر اسلام ! اگر یہ گروہ ابھی تک دشمنوں کے ساتھ نکلا نہیں لیکن ان کے خلاف ورزی کرنے کا آپ ﷺ کو اندیشہ ہے تو چاہئے کہ آپ ان کا عہد انہیں پر لوٹا دیں یعنی اعلان کردیں کہ آج سے ہمارے اور آپ کے درمیان جو عہد و پیمان ہوا تھا وہ منسوخ ہے اور ہم آپ کو اس کا پابند نہیں کرتے اور نہ خود پابند ہوتے ہیں یہ اعلان ہوجائے گا تو دونوں فریق کو یکساں طور پر تیاری کی مہلت مل جائے گی اور وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کھل کر کریں گے اور آپ جو دفاع کرنا چاہیں کھل کر کریں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور بظاہرمعائدے کا پابند رہنا اور اندر ہی اندر معائدہ کی خلاف ورزی کرتے رہنا خیانت ہی تو ہے اور پھر آخر اس کی ضرورت کیا ؟ دھوکا اور فریب میں نہ خود مبتلا ہو اور نہ دوسروں کو کرو کیونکہ معاہدہ کا اصل مطلب تو یہ ہے کہ دونوں فریق مطمئن رہ کر زندگی بسر کریں اور کسی فریق کو بھی دوسرے سے کوئی خطرہ نہ رہے لنکو اگر اپنی اپنی جگہ پر دونوں فریق تیاری کر رہے ہوں یا ایک فریق ہی تیاری کر رہا ہو اور دوسرے کو دھوکے میں مبتلا رکھے اور وہ خالی الذہن ہونے کے باعث کوئی تیاری نہ کرے تو یہ خیانت نہ ہوگی اور خیانت کوئی بھی کرے اللہ اس کو پسند نہیں کرتا۔ کیا دنیا میں اس وقت تک کسی قوم نے احکام جنگ کو اس درجہ بلند اخلاقی معیار پر کھا ہے ؟ اگر غور کرو گے تو عالم گیر جنگ یورت کی تاریخ کا ہر صفحہ اس کے جواب میں ” نہیں “ کہے گا ! اوراق الٹتے جاؤ اور دیکھتے جاؤ ۔ غور کرو کہ اسلام کا عدل و انصاف کیا شے ہے ؟ کہ خیانت کرنے والے دشمن کے حقوق کی بھی حفاظت کی جاتی ہے اور مسلمانوں کو ان کے مقابلہ میں اس کا پابند کیا جاتا ہے کہ عہد کو واپس کرنے سے پہلے کسی قسم کی تیاری بھی ان کے خلاف نہ کریں کیونکہ یہ بھی خیانت ہے۔ کاش ! کہ آج قوم مسلم خیانت کی اس تعریف سے واقف ہی نہ رہی ، کیوں ؟ اس لئے کہ پیشوایان مذہب نے خیانت کی اس صحیح تعریف سے لوگوں کو روشناس ہی نہ کرایا بلکہ انہوں نے قوم کو باور کرایا کہ ایک کام خود کریں اور دوسرے پر الزام رکھ دیں کہ یہ کام اس نے کیا ہے تو یہ کوئی خیانت نہیں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر ان کو یہ بتایا کہ اس خیانت کے الزام میں پکڑے ہوئے کو کوئی چھڑانے کی اپیل کرے تو اس ملزم کو چھوڑنا خیانت ہے 0 پھر مزید آگے بڑھ کر ان کو یہ بھی بتایا جائے کہ یہ کام اللہ کے ایک نبی کا ہے اور پھر نبی سے بھی اللہ تعالیٰ نے مخصوص ہدایت دے کر کرایا ہے تو وہ یقیناً اجر وثواب کا کام قرار پاتا ہے پھر آخر اس سے کوئی بچے گا کیوں ؟ جب کہ وہ کام ہم خرما و ہم صواب کی مصداق قرار پا گیا۔ اس وقت اتنی بات یاد رکھو اس سے پردہ ان شاء اللہ سورة یوسف میں چل کر اٹھایا جائے گا جو اسی جلد میں موجود ہے۔ ہاں ! اس وقت صرف یہ کہہ دو کہ : اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ00156
Top