Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 70
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْۤ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤى١ۙ اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی قُلْ : کہ دیں لِّمَنْ : ان سے جو فِيْٓ : میں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ مِّنَ : سے الْاَسْرٰٓي : قیدی اِنْ : اگر يَّعْلَمِ : معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دل خَيْرًا : کوئی بھلائی يُّؤْتِكُمْ : تمہیں دے گا خَيْرًا : بہتر مِّمَّآ : اس سے جو اُخِذَ : لیا گیا مِنْكُمْ : تم سے وَيَغْفِرْ : اور بخشدے گا لَكُمْ : تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اے پیغمبر اسلام ! لڑئی کے قیدیوں میں سے جو لوگ تمہارے قبضہ میں ہیں ان سے کہہ دو اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں کچھ نیکی پائی تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے کہیں بہتر چیز تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا وہ بڑا بخشنے والا رحمت والا ہے
بدر کے قیدیوں کو بھی تسلی دی کہ تم کو اس سے بھی زیادہ ملے گا جو تم نے اس وقت دیا : 93: اللہ تعالیٰ کے فضل بےپایاں کا کون اندازہ کرسکتا ہے کہ انسان کتنے ہی جرم کرتا جائے اور کتنی ہی بد اعتدالیاں کرچکا ہو آخر اللہ کا تو وہ بندہ ہی ہوتا ہے اور اس کی حکمت کا کیا کہنا اس رقم سے جو بدر کے قیدیوں سے وصول کی گئی تھی یقیناً ان کو تکلیف پہنچی ہوگی کیونکہ مال کے ساتھ محبت تو ہر ایک کو ہوتی ہے پھر کفار کو تو ویسے بھی بےانداز محبت تھی اس آیت میں ان کی بھی دلجوئی فرمادی اور اعلان کردیا کہ بدر کے قیدیو ! اگر وہ وقت نہیں رہا جب تم مکہ سے بڑے طمطراق کے ساتتھ نکل رہے تھے تو یہ وقت بھی یقیناً نہیں رہے گا اور تم کو جلدی آزاد کردیا جائے گا۔ رہی یہ بات کہ تم نے جو اس وقت فدیہ پیش کیا وہ تم گراں گزرتا ہو ، نہیں اگر تم میں کوئی خیر اللہ نے دیکھی یعنی تم سے کوئی خیر و بھلائی کی بات ہوئی تو تمہارا یہ اس وقت ادا کیا ہوا فدیہ کوئی اتنی بڑی رقم نہیں کہ تم کو واپس نہ لوٹائی جاسکتی ہو تو یقیناً اگر تم نے اپنے آپ پر نظر ثانی کی اور حق و ناحق کی شناخت کرنے کی کوشش کی تو تم کو اس سے زیادہ مال واپس دلا دیا جائے گا لیکن اللہ کے ہاں قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی اور یہ اس کا قانون ہے کہ آج تم اس مقام پر ہو کہ تم کو دینا پڑ رہا ہے اور کل ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ اس مال کے تمہارے سامنے ڈھیر لگا دیئے جائیں اور تتم کو مالا مال کردیا جائے تمہارے دلوں کے رازوں سے اللہ واقف ہے۔ تم آزادی کے ساتھ اپنا نفع و نقصان دیکھو اور غور کرو کہ تم کو کیا کہنا چاہئے اور حالات کا تقاضا کیا ہے۔ تاریخ و حدیث کا مطالعہ ہم کو بتا دیتا ہے کہ ان میں کتنے ہی تھے جو بعد میں ایمان لائے اور کتنے ہی تھے جن کو اللہ نے فی الواقع مالا مال کردیا اور انہوں نے اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی کتنی خدمت کی اور اسلام نے ان کو اخروی فائدوں کے ساتھ کتنے دینوی فوائد پہنچائے۔ ان سب میں سے حضرت عباس ؓ کا ذکر تو اکثر مفسرین نے بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے کہ اس فدیہ کے ادا کرتے وقت انہوں نے کیا کچھ کہا اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اپنا چچا کو کیا جواب سنائے گئے پھر بعد میں جب عباس ؓ مسلمان ہوگئے تو انہوں نے دین کی کیا کیا خدمت سرانجام دیں اور ان کو اسلام کی طرف کیا کیا فائدے پہنچائے گئے اور ان کی دنیا اور آخرت کو کس طرح سنوار دیا گیا۔ یہ داستان بہت طولانی ہے۔ یہ آیت بھی اس کی پوری وضاحت کر رہی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا جنگی قیدیوں سے فدیہ طلب کرنا کسی حکم کے خلاف ورزی نہیں تھی اور نہ ہی ان سے فدیہ طلب کرنا دینی مصلحت کے خلاف تھا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو یہ بات کبھی ناپسند تھی بلکہ اس کے برعکس اس آیت نے یہ واضح کردیا کہ ان جنگی قیدیوں سے فدیہ طلب کرنا عین منشائے خداوندی تھا اور پھر جو کچھ ان سے وصول کیا گیا وہ بھی کوئی تعویذات کی کمائی نہیں تتھی اور نہ جھاڑ پھونک کا حل تھا یہ مال حلال و طیب تھا لشکر اسلامی میں یہ تقسیم کیا گیا اور بعد میں ان میں سے جو مسلمان ہوگئے ان کو بھی اسلام قبول کرنے کے بعد بیسیوں گنا مال عطا کیا گیا۔ لیکن جو کچھ ہوا کسی اندھے قانون کے مطابق نہیں ہوا بلکہ صحیح اور قانونی تقاضوں کے عین مطابق ہوا۔
Top