Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 129
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ١ۖۗ٘ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۠ ۧ
فَاِنْ تَوَلَّوْا
: پھر اگر وہ منہ موڑیں
فَقُلْ
: تو کہ دیں
حَسْبِيَ
: مجھے کافی ہے
اللّٰهُ
: اللہ
لَآ
: نہیں
اِلٰهَ
: کوئی معبود
اِلَّا ھُوَ
: اس کے سوا
عَلَيْهِ
: اس پر
تَوَكَّلْتُ
: میں نے بھروسہ کیا
وَھُوَ
: اور وہ
رَبُّ
: مالک
الْعَرْشِ
: عرش
الْعَظِيْمِ
: عظیم
اگر اس پر بھی یہ لوگ سرتابی کریں تو ان سے کہہ دو میرے لیے اللہ کا سہارا بس کرتا ہے ، کوئی معبود نہیں ہے مگر صرف اسی کی ذات میں نے اسی پر بھروسہ کیا وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے
16۔ سریہ قطن یا سریہ ابی سلمہ محرم 3 ہجری : قطن ۔ ایک پہاڑ کا نام ہے جو قید کی طرف واقع ہے اور قید ایک پانی کا چشمہ ہے۔ بنی عمرو بن کلاب کے متعلق ابی سلمہ ڈیڑھ سو آدمی لے کر جس میں مہاجرین اور انصار دونوں شامل تھے۔ طلحہ اور سلمہ پسران خویلد کی تلاش میں نکلے اور قطن پہاڑ تک تلاش کی مگر ان میں سے کوئی دستیاب نہیں ہوا اور نہ کسی سے کچھ لڑائی ہوئی۔ 16۔ سریہ الرجیع صفر 3 ہجری : قطن۔ ایک پہاڑ کا نام ہے جو قید کی طرف واقع ہے اور قید ایک پانی کا چشمہ ہے۔ بنی عمرو بن کلاب کے متعلق ابی سلمہ ڈیڑھ سو آدمی لے کر جس میں مہاجرین اور انصار دونوں شامل ت تھے۔ طلحہ اور سلمہ پسران خویلد کی تلاش میں نکلے اور قطن پہاڑ تک تلاش کی مگر ان میں سے کوئی دستیاب نہیں ہوا اور نہ کسی سے کچھ لڑائی ہوئی۔ 17۔ سریہ الرجیع صفر 3 ہجری : رجیع ایک چشمہ کا نام ہے جو حجاز کے کنارہ پر قوم ہذیل سے متعلق ہے۔ چند لوگ قوم عضل اور قوم فازی کے آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ ہم لوگوں میں اسلام پھیل گیا ہے۔ آپ کچھ لوگ مذہب کے مسائل سکھانے کو ساتھ کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے چھ آدمی ساتھ کردیئے۔ جب رجیع میں پہنچے تو انہوں نے دغا بازی کی اور ان تمام صحابہ کو تلواروں سے گھیر لیا۔ اخیر کو یہ کہا کہ اگر تم قریش مکہ کے قبضہ میں جانا قبول کرو تو ہم تم کو مارنے کے نہیں۔ قریش نے ہمارے آدمی قید لر لئے ہیں ان کے بدلے تم کو دے کر اپنے آدمی چھوڑالائیں گے۔ ان چھ میں سے مرثد بن مرثد اور خالد بن البکر و عاصم بن ثابت نے نہ مانا اور نہایت بہادری سے وہیں لڑ کر شہید ہوگئے۔ اخیر کو عاصم بھی لڑنے پر تیار ہوا اور لوگوں نے پتھروں سے مار کر ان کو بھی شہید کیا باقی دو شخصوں کو مکہ میں لے جاکر قریش کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ قریش نے ان کے ہاتھ پاؤں باندھے اور ان کو شہید کردیا۔ 18۔ سریہ بئر معونہ صفر 3 ہجری : بئر معونہ۔ یہ ایک کنواں ہے۔ درمیان بنی عامر اور حرہ بنی سلیم کے۔ ابو براء عامر بن مالک اگرچہ مسلمان نہیں ہوا تھا مگر مذہب اسلام کو ناپسند بھی نہیں کرتا تھا۔ اس نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اگر آپ کچھ لوگ اسلام کا وعظ کرنے کو نجد کی طرف بھیجیں تو غالباً اس طرف کے لوگ اسلام قبول کریں گے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ اہل نجد سے اندیشہ ہے۔ ابو براء نے کہا کہ وہ ہماری حمایت میں ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے چالیس اشخاص جو قرآن کے قاری تھے اور دن رات قرآن پڑھنا ان کا کام تھا ، ساتھ کردیئے۔ بئر معونہ پر یہ لوگ ٹھہرے اور حرام بن ملحان کے ہاتھ آنحضرت ﷺ کا خط جو عامر بن پفیل نجد والے کے نام کا تھا بھیجا اس نے عامرکو قتل کر ڈالا اور بہت بڑی جماعت سے بئر معونہ پر چڑھ آیا اور سب مسلمانوں کو گھیر کر مار ڈلا صرف ایک شخص مردوں میں پڑا ہوا بچ گیا۔ 19۔ غزوہ بنی نضیر ربیع الاول 3 ہجری : بنی نضیر یہودیوں کے ایک قبیلہ کا نام ہے۔ عمرو بن امیہ الضمیری مدینہ کو آتا تھا۔ رستہ میں دو شخص قبیلہ بنی عامر سے ملے جس قبیلہ سے کہ آنحضرت ﷺ سے عہد تھا۔ عمرو بن امیہ نے ان دونوں کو سوتے میں مارڈالا۔ جب آنحضرت ﷺ کو خبر ملی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ان دونوں کی دیت دوں گا۔ آنحضرت ﷺ نے ان دونوں کی دیت کے لئے بنی نضیر سے بھی مدد چاہی کیونکہ بنی نضیر اور آنحضرت ﷺ کے درمیان بھی معاہدہ تھا اور بنی نضیر اور بنی عامر آپس میں حلیف تھے۔ خود آنحضرت ﷺ قبیلہ بنی نضیر میں دیت کے پورا کرنے میں مدد کے مانگنے کو گئے۔ آنحضرت ﷺ ایک دیوار کے تلے جا بیٹھے۔ بنی نضیر نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایسے وقت میں آنحضرت ﷺ کو مار ڈالا جائے اور یہ تجویز کی کہ دیوار پر چڑھ کر ایک بڑا پتھر ان پر ڈال دیا جائے اور عمرو بن حجاش اس کام کے لئے مقرر ہوا۔ اتنے میں آنحضرت ﷺ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ میں چلے آئے۔ جب کہ یہ دغا بازغ بنی نضیر کی محقق ہوگئی تو آنحضرت ﷺ نے ان پر چڑھائی کی وہ قلعہ بند ہوگئے اور آنحضرت ﷺ نے ان کا محاصرہ کرلیا اور یہ بات ٹھہری کہ وہ لوگ مدینہ سے چلے جائیں اور ان کے اونت سوائے ہتھیاروں کے جس قدر مال و اسباب اٹھا سکیں لے جائیں۔ چناچہ انہوں نے چھ سو اونٹوں پر اپنا اسباب لادا اور اپنے مکانوں کو خود توڑ دیا اور خیبر میں جا کر آباد ہوگئے۔ 20۔ سریہ محمد بن سلمہ ربیع الاول ہجری : کعب بن اشرف ایک یہودی تھا جو کفار قریش کا تھانگی تھا اور مسلمانوں کو اور آنحضرت ﷺ کو ایذا پہنچاتا تھا اور قریش مکہ کو حملہ کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ اس کو محمد سلمہ نے اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے مار ڈالا۔ واقعہ بدر کے بعد یہ خود مکہ گیا اور قریش کو جنگ پر آمادہ کیا مقتولین بدر کے مرثے اس نے پڑھ کر کفار کو نہایت جوش دلایا۔ ( کامل ابن الاثیر 58) واقعہ تو اس قدر ہے اب رہی یہ بات کہ ان لوگوں نے خود مارا یا آنحضرت ﷺ کے حکم سے ایک ایسا امر ہے جس کا قبل اطمینان تصفیہ نہیں ہو سکتا۔ مگر ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے حکم سے مارا اور اس بات کا تصفیہ کہ ایسی حالت میں کہ وہ دشمنوں سے سازش رکھتا تھا اور مدینہ پر حملہ کی ترغیب دیتا تھا اس کا قتل کروا دینا بلحاظ ان اصولوں کے جو انتظام جنگ اور دشمنوں کے جاسوسوں اور تھانگیوں سے علاقہ رکھتے ہیں واجب تھا یا ناواجب ان لوگوں کے تصفیہ پر چھوڑتے ہیں جو اصول جنگ سے واقف ہیں۔ 21۔ غزوہ دی امر ربیع الاول 3 ہجری : امر۔ راے مشدد مفتوحہ سے ایک موضع کا نام ہے جو نواح نجد میں واقع ہے۔ یہ صرف ایک سفر تھا جو آنحضرت ﷺ نے نجد اور عطفان کی طرف فرمایا تھا اس سفر میں نہ کسی سے مقابلہ ہوا نہ کسی سے لڑائی ہوئی ایک مہینہ تک اس نواح میں آپ نے قیام کیا پھر واپس تشریف لے آئے۔ 22۔ غزوہۃ فرع بن بحران جمادی الاول 3 ہجری : فرع۔ ایک گاؤں کا نام ہے ربذ پہاڑ کے پاس مدینہ سے آٹھ منزل مکہ کی طرف۔ بحران۔ ایک میدان ہے اسی کے پاس۔ آنحضرت ﷺ نے بذات خاص قریش مکہ کا حال دریافت کرنے کو سفر کیا اور دو مہینہ تک اس نواح میں قیام فرمایا اور پھر مدینہ میں چلے گئے کوئی جھگڑا قضیہ کسی سے نہیں ہوا۔ 23۔ غزوۃ قردہ۔ ہمادی الاخر 3 ہجری : قردہ۔ ایک چشمہ کا نام ہے جو نجد میں ہے۔ قریش مکہ کی تجارت کا روکنا جن سے ہر وقت اندیشہ جنگ تھا ایک ضروری امر تھا انہوں نے قدیم راستہ تجارت کا چھوڑ کر ایک نیا راستہ عراق میں ہو کو نکالنا چاہا اور ابو سفیان بن حرب قافلہ لے کر نکلا اور فرات بن حیان رستہ بتانے والا تھا۔ جب اس کی خبر آنحضرت ﷺ کو پہنچی تو زید بن حارثہ کو ان پر بھیجا اس نے قافلہ کو لوٹ لیا اور فرات بن حیان کو پکڑ لیا جو بعد اس کے مسلمان ہوگیا۔ یہ تمام واقعات ایسے ہیں جو ایک جنگجو دشمن کے مقابلہ میں ہر ایک قوم کو کرنے پڑتے ہیں ان واقعات سے اس بات پر استدلال نہیں ہو سکتا کہ یہ لڑائیاں بزور مسلمان کرنے کے لئے تھیں۔ 24۔ غزوہ احد شوال 3 ہجری : احد۔ مدینہ سے کچھ فاصلہ پر جو سرخ پہاڑ ہے اس کا نام ہے۔ ابو سفیان مکہ سے تین ہزار لڑنے والوں کے ساتھ لڑنے کو اور مدینہ پر حملہ کرنے کو روانہ ہوا جب کہ وہ لوگ عینین میں جو بطن سخبہ میں مدینہ کے مقابل ایک پہاڑ ہے پر پہنچے تو آنحضرت ﷺ بھی مدینہ سے روانہ ہوئے اور احد کے پاس قیام کیا۔ نہایت سخت لڑائی ہوئی ، مسلمانوں کی فتح کامل ہونے کو تھی کہ لوگ لوٹنے میں مشغول ہوئے اور فتح شکست میں بدل گئی۔ آنحضرت ﷺ کے چار دانت پتھر کے صدمہ سے شہید ہوگئے۔ مشہور ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے ہیں اس پر بہت لوگ بھاگ نکلے جب معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ صحیح وسالم ہیں تب سب لوگ ایک محفوظ جگہ میں اکھٹے ہوگئے۔ دوسرے دن قریش مکہ نے وہاں سے کوچ کیا اور مکہ کو چلے گئے اور آنحضرت ﷺ نے شہداء کو دفن کیا اور مدینہ میں چلے آئے۔ 25۔ غزوہ حمراء الاسد۔ شوال 3 ہجری : حمراء الاسد۔ ایک جگہ ہے مدینہ سے آٹھ میل پر۔ احد سے واپس آنے کے دوسرے دن آنحضرت ﷺ نے انہی لوگوں کو ساتھ لے کر جو احد کی لڑائی میں شریک تھے مدینہ سے کوچ کیا اور حمراء الاسد میں پہنچ کر تین دن تک قیام کیا اور واپس آگئے۔ غالباً یہ اس لئے تھا کہ لوگ یہ نہ خیال کریں کہ احد کے واقعہ کے سبب سے مسلمانوں میں اب کچھ قوت باقی نہیں رہی۔ 26۔ غزوہ بدر موعودہ یا غزوہ بدر الاخری ذیقعہ 3 ہجری : ابو سفیان نے وعدہ کیا تھا کہ تم سے پھر لڑوں گا اس وعدہ پر آنحضرت ﷺ نے مدینہ سے کوچ کیا اور بدر میں پہنچ کر مقام فرمایا۔ ابو سفیان بھی مکہ سے نکل کر ظہران یا عسفان تک آیا مگر آگے نہیں بڑھا اور کہا کہ یہ سال قحط کا ہے اس میں لڑنا مناسب نہیں اور سب لوگوں کو لے کر مکہ واپس چلا گیا۔ 27۔ غزوہ ذات الرقاع محرم 4 ہجری : ذات الرقاع۔ اس غزوہ کا یا تو اس لئے نام ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے جھنڈوں میں جو پھٹ گئے تھے پیوند لگائے تھے اور بعض کا قول ہے کہ جہاں مسلمانوں لا لشکر ٹھہرا تھا۔ وہاں ایک درخت تھا جس کا نام ذات الرقاع تھا۔ بنی محارب اور بنی ثعلبہ نے جو قبیلہ غطفان میں پہنچے تو ایک بہت بڑا گروہ دشمنوں کا نظر آیا۔ دونوں طرف کے لوگ لڑنے کے ارادہ سے آگے بڑھے مگر لڑائی نہیں ہوئی اور ہر ایک گروہ واپس چلا گیا۔ 28۔ غزوہ وزمتہ الجندل ربیع الاول 4 ہجری : دومۃ الجندل۔ ایک قلعہ کا نام ہے جو مدینہ اور دمشق کے بیچ میں ہے اور اس کے قریب ایک پانی کا چشمہ ہے۔ اس بات کا خیال ہونے پر کہ یہاں کے لوگوں نے بھی کے لئے کچھ لوگ جمع کئے ہیں اس طرف کوچ کیا مگر اثنائے راہ میں سے واپس تشریف لے آئے۔ غالباً اس لئے کہ اس خیال کی صحت نہ پائی گئی ہوگی۔ 29۔ غزوہ بنی المصطلق یا غزوہ مریسیع شعبان 5 ہجری : بنی المصطلق۔ عرب کے ایک قبیلہ کا نام ہے۔ مریسیع۔ ایک چشمہ کا نام ہے جو قدید کی طرف واقع ہے۔ آنحضرت ﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ حارث بن ابی ضرار نے لڑائی کے ارادہ پر لوگوں کو جمع کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے مقابلہ کے لئے کوچ کیا اور مریسیع کے مقام پر ونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا اور لڑائی ہوئی اور بنی المصطلق کو شکست ہوئی اور ان کی عورتیں اور بچے سب قید ہوگئے ۔ اس وقت تک یہ آیت حریت : ” فاما منا بعد واما فداء “ نازل نہیں ہوئی تھی۔ 30۔ غزوہ خندق ذیقعدہ 5 ہجری : بنی نضیر کے یہودی جو جلا وطن کئے گئے ت تھے ان کے چند سردار اور بنی وائل کے چند سردار مکہ میں قریش کے پاس گئے ان کو مدینہ پر حملہ کرنے کو آمادہ کیا اور روپیہ اور سامان اور ہر طرح سے مدد دینے کا وعدہ کیا۔ قریش مکہ اس پر راضی ہوئے اور ابو سفیان کو سردار قرار دیا اور لوگوں کو جمع کیا اور قبیلہ عطفان میں پہنچے اور اس قبیلہ میں سے بھی لوگ ساتھ ہوئے اور دس ہزار آدمیوں کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کو روانہ ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے اس خبر کو سن کر مدینہ سے باہر جا کر لڑنا مناسب نہ سمجھا اور مدینہ کے گرد خندق کھود کر مورچہ بندی کی یہود بنی قریظہ جن سے اور آنحضرت ﷺ سے امن کا معاہدہ تھا انہوں نے بھی اپنا معاہدہ توڑ دیا اور دشمنوں سے مل گئے آنحضرت ﷺ نے ان کے پاس لوگوں کو بھیجا اور معاہدہ یاد دلایا مگر اعلانیہ مخالفت کی۔ اس واقعہ سے اور بنی قریظہ کے دشمنوں کے مل جانے سے مدینہ والوں پر نہایت سخت وقت تھا اور ایک شخص کے بچے کی بھی توقع نہ غرضیکہ یہ تمام لشکر مدینہ پر آپہنچا اور مدینہ کا محاصرہ کرلیا۔ ایک مہینہ تک محاصرہ رہا اور لڑائیاں ہوتی رہیں۔ محصور مسلمان بھی خوب دل توڑ کر دشمنوں کے حملہ کو دفع کرتے تھے۔ آخر کار دشمن غالب نہ آسکا اور محاصرہ اٹھا کر نہایت ناکامی کے ساتھ واپس چلا گیا۔ 31۔ غزوہ عبداللہ بن عتیک ذیقعدہ 5 ہجری : جس زمانہ میں مدینہ پر چڑھائی کرنے کو تمام قومیں جمع ہو رہی تھیں اور آنحضرت ﷺ مدینہ کے گرد خندق کھودنے میں مصروف تھے۔ اسی زمانہ میں رافع بن عبداللہ جس کو سلام بن ابی الحقیق کہتے تھے ایک سردار یہودی تھا وہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے قوموں کے جمع کرنے میں بہت کوشش کر رہا تھا۔ عبداللہ ابن عتیک اور عبداللہ ابن انیسا اور ابو قتادہ اور اسود بن خزاعی اور مسعود بن سناد خیبر کو گئے جہاں وہ رہتا تھا اور کسی طرح رات کو اس کی خواب گاہ میں چلے گئے اور اس کو مار ڈالا۔ مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ پیغمبر خدا نے ان کو اس یہودی اسردار کے قتل کو بھیجا تھا شاید ایسا ہوا ہو مگر ہم اس لئے شبہ میں ہیں کہ ایشیائی مورخوں کی عادت ہے کہ خواہ مخواہ ہرچیز کو پیغمبر سے منسوب کردیتے ہیں علاوہ اس کے یہ قصہ ایسی عجیب باتوں کے ساتھ ملا کر لکھا ہے کہ وہی باتیں اس کے سچ ہونے پر شبہ ڈالتی ہیں نہایت شبہ ہے کہ یہ واقعہ ہوا بھی یا نہیں مگر ہم کو مناسب ہے کہ جو طرف ضعیف ہے اسی کو اختیار کریں پس تسلیم کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ کے حکم سے وہ گئے اور انہوں نے اس یہودی کو جو قوموں کو مدینہ پر حملہ کرنے کو جمع کر رہا تھا مار ڈالا۔ مگر اس واقعہ سے ہمارے اس دعوے میں کہ تلوار کے زور سے اسلام قبول کروانا ان لڑایئوں سے مقصود نہ تھا کچھ خلل واقع نہیں ہوتا۔ 32۔ غزوہ بنی قریظہ ذی الحجہ 5 ہجری : بنی قریظہ۔ ایک قبیلہ یہود کا تھا جو مدینہ میں رہتا تھا ان سے اور آنحضرت ﷺ سے امن کا معاہدہ تھا مگر جب بدر کی لڑائی ہوئی بنی قریظہ نے معاہدہ توڑا اور دشمنوں کو ہتھیار دینے سے مدد کی۔ جب ان سے مواخذہ ہوا تو کہا ہم بھول گئے اور ہم سے خطا ہوئی معاف کیجئے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے دوبارہ ان سے معاہدہ کیا۔ اس کو بھی انہوں نے توڑدیا اور خندق کی لڑائی میں دشمنوں سے جا ملے۔ دشمنوں نے مدینہ پر حملہ کیا تھا اور مدینہ کے گرد خندق کھودی گوئی تھی اور بنی قریظہ مدینہ میں رہتے تھے پس خاص شہر کے رہنے والوں کا محاصرہ کی حالت میں ہونا سخت واقعہ تھا کہ ایک مسلمان کو بھی زندہ بچنے کی توقع نہ رہی ہوگی۔ (بیضاوی و کبیر) جب دشمنوں نے مدینہ کا محاصرہ اٹھا لیا اور واپس چلے گئے اس وقت آنحضرت ﷺ نے بنی قریظہ کو ان کی بغاوت اور عہد شکنی کی سزا دینی چاہی اور بنی قریظہ جہاں رہتے تھے ان کا محاصرہ کرلیا۔ پچیس دن تک محاصرہ رہا اسی دوران میں انہوں نے کعب بن اسد سے جو ان کا سردار تھا صلاح کی کہ کیا کرنا چاہئے اس نے صلاح دی کہ تین کاموں میں سے ایک اختیار کرو یا ہم سب اسلام قبول کرلیں یا خود اپنی آل اولاد اور عورتوں کو قتل کر کے محمد ﷺ سے لڑ کے مر جائیں یا آج ہی کہ سبت کا دن ہے ان پر حملہ کردیں کیونکہ وہ آج کے دل غافل ہوں گے اور سمجھتے ہوں گے کہ سبت کے دن یہودی نہیں لڑنے کے مگر وہ ان تینوں باتوں میں سے کسی پر راضی نہ ہوئے۔ اب وہ صلح کی طرح متوجہ ہوئے اس کا یہ جواب تھا کہ بلا کسی شرط کے وہ اپنے تئیں سپرد کریں اور پیغمبر خدا ﷺ جو چاہیں گے وہ ان کی نسبت حکم دیں گے۔ تب انہوں نے درخواست کی کہ تھوڑی دیر کے لئے ابولبانہ کو جو اس قوم سے تھا جو بنی قریظہ کے حلیف تھے ہمارے پاس بھیج دیا جائے وہ گئے اور تمام لوگوں نے ان سے پوچھا کہ ہم پیغمبر کے حکم پر اپنے تئیں سپرد کردینا قبول کرلیں یا نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں مگر اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا جس سے یہ اشارہ تھا کہ سب قتل کئے جائیں گے تب انہوں نے جیسا کہ تفسیر کشاف میں لکھا ہے اس بات پر اپنے تئیں سپرد کرنے سے کہ آنحضرت ﷺ جو چاہیں گے ان کی نسبت حکم دیں گے انکار کیا۔ (کشاف ص 1127) ابو لبانہ خوب جانتے تھے کہ بنی قریظہ دو دفعہ اپنا عہد توڑ چکے تھے ان کا کوئی معاہدہ آئندہ کے لئے کریں قابل اعتبار نہ ہوگا اور اگر وہ اسلام قبول کرنے پر راضی ہوں تو بھی اس پر یقین نہیں ہوگا اور وہ منافق سمجھے جائیں گے جن کی نسبت جب وہ اعلانیہ کوئی دشمنی کرچکے ہوں وہی حکم ہے جو ان لوگوں کی نسبت ہے جو اعلانیہ کافر ہیں۔ علاوہ اس کے ابو لبانہ کو معلوم تھا کہ وہ بغاوت کی سزا کے مستحق ہیں اگر ان کی جگہ کوئی مسلمان قوم ہوتی تو وہ بھی بغاوت کی سزا سے بچ نہیں سکتی تھی۔ اسی سبب سے انہوں نے اشارہ کیا کہ سب قتل کئے جائیں گے۔ اسی پر بنی اوس جو بنی قریظہ کے حلیف تھے۔ درمیان میں پڑے اور آنحضرت ﷺ سے کہا کہ جس طرح آپ نے یہود بنی قینقاع سے جو بنی خزرج کے حلیف تھے معاملہ کیا وہی ان کے ساتھ بھی کیجئے اس پر آنحضرت ﷺ نے کہا کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری قوم ہی کا ایک شخص یعنی سعد ابن معاذ جو حکم دے دے وہ منظور کیا جائے۔ بنی اوس اور بنی قریظہ نے اول اپنے تئیں اسی بات پر سپرد کردیا تھا کہ پیغمبر خدا ﷺ ان کی نسبت جو چاہیں حکم دیں اور بعد کو سعد ابن معاذ حکم قرار دینے گئے تھے مگر یہ قول صحیح نہیں ہے۔ بخاری میں جو سب سے زیادہ معتبر کتاب ہے ابن سعید خدری سے دو روایتیں منقول ہیں اور ان میں اور ابن ہشام میں صاف بیان ہوا ہے کہ بنی قریظہ نے اس بات پر اپنے تئیں سپرد کیا تھا کہ سعد ابن معاذ جو ان کی نسبت حکم دیں وہ کیا جائے۔ قال لما انزلت بنو قریظہ۔۔۔۔۔۔۔ بحکم الملک ۔ (بخاری) غرضیکہ سعد ابن معاذ بلائے گئے اور انہوں نے یہ حکم دیا کہ لڑنے والوں کو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتیں اور بچے قید کر لئے جائیں اور ان کا مال تقسیم کردیا جائے مگر بخاری کی حدیث میں عورتوں اور مال کی تقسیم کا کچھ ذکر نہیں ہے۔ بہرحال اس حکم کی تعمیل ہوئی۔ تمام عورتیں اور بچے اور لڑکے جن کی داڑھی موچھ نہیں نکلی تھی قتل سے محفوظ رہے اور تمام مرد بجزتین شخصوں کے جن کی نسبت ثابت ہوا تھا کہ اس بغاوت میں شریک نہ تھے قتل کئے گئے۔ ایک عورت جس کا نام بنانہ تھا اور جس نے خلاد بن سوید بن الصامت کو مارڈالا تھا بطور قصاص کے ماری گئی جو عورتیں اور بچے قتل ہونے سے بچے تھے وہ لونڈی اور غلام بنا لئے تھے اور تمام جائیداد بنی قریظہ کی ضبط ہو کر تقسیم کی گئی مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت تک آیت حریت جس میں ان لوگوں کے قتل کا جو لڑائی میں قید ہوجائیں اور ان کے لونڈی اور غلام بنانے کا امتناع ہے نازل نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا ان لوگوں کو بطور قیدیان جنگ سزا نہیں دی گئی تھی بلکہ باغیوں کے لئے جو سزا ہونی چاہئے وہ دی گئی تھی۔ (ابن ہشام 609) مقتولین کی تعداد میں نہایت مبالغہ معلوم ہوتا ہے۔ بعضوں نے کہا ہے کہ چار سو تھے اور بعضوں نے کہا کہ چھ سو اور بعضوں نے کہا سات سو اور بعضوں نے کہا آٹھ سو اور بعضوں نے کہا نو سو۔ مگر بلحاظ اس آبادی کے جو اس زمانہ میں مدینہ میں تھی یقین نہیں ہو سکتا کہ چار سو آدمی بھی لڑنے والے بنی قریظہ کے محلہ میں ہوں۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ یہ واقعہ نہایت خوفناک تھا۔ مگر کون سا زمانہ ہے اور کون سی قوم ہے جس کے ہاتھ سے باغیوں کی نسبت اسے بھی سخت سزائیں نہ دی گئی ہوں۔ جن لوگوں نے بغاوت کی تاریخیں پڑھی ہیں یا اپنی آنکوں سے اس انیسویں صدی عیسوی میں بھی جو سولائزیشن کا زمانہ کہلاتا ہے یا اس سے تھوڑے زمانہ پہلے بغاوت کے واقعات دیکھے ہیں ان کی آنکھوں میں کئی سو آدمیوں کا بجز بغاوت قتل ہونا کوئی بڑا واقعہ معلوم نہ ہوگا۔ رہی یہ بات کہ اس قسم کی لڑائیوں اور ایسی خونریزی کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے زمانہ میں اور محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانہ میں کیوں جائز رکھا ؟ اور مثل حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کے کیوں نہ اپنی جان دی ؟ اس کی نسبت ہم اخیر کو بحث کریں گ۔ اس مقام پر ہم کو صرف یہ بات دکھانی ہے کہ جو لڑائیاں آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہوئیں وہ اس بنا پر نہ تھیں کہ لوگوں کو بجبر اور ہتھیار کے زور سے مسلمان بنا دیا جائے۔ سو اس عظیم واقعہ سے بھی جو بنی قریظہ کے قتل کا واقعہ ہے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ صرف بزور شمشیر امن کا قائم رکھنا مقصود تھا نہ کسی کو بجبر مسلمان کرنا۔ 33۔ سریہ قریظاء یا محمد بن مسلمہ محرم 6 ہجری : قریظاء۔ ایک قبیلہ ہے بنی بکر بن کلاب کا۔ یہ لوگ ضربہ کی طرف رہتے تھے جو مدینہ سے سات منزل ہے اور عمرہ کے لئے مکہ جانے کو نکلے تھے جیسا کہ ان کے سردار نے آنحضرت ﷺ کے سامنے بیان کیا کہ ان کا ارادہ عمرہ ادا کرنے کا تھا۔ غالباً ان کے نکلنے سے شبہ ہوا ہوگا اس لئے آنحضرت ﷺ نے محمد بن مسلمہ کو تیس سوار دے کر اس طرف روانہ کیا مگر وہ لوگ ان سواروں کو دیکھ کر بھاگ گئے۔ مگر ان میں سے ثمانیہ بن اثال پکڑا گیا۔ جب محمد بن مسلمہ مدینہ میں آئے تو اس کو بھی لائے اور مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا مگر آنحضرت ﷺ کے حکم سے اس کو چھوڑ دیا گیا اور بعد کو وہ مسلمان بھی ہوگیا۔ 34۔ غزوہ بنی لحیان ربیع الاول 6 ہجری : غزوہ رجیع میں ذکر ہوچکا ہے کہ رجیع کے مقام پر لوگوں نے دغا بازی سے مسلمانوں کو مارڈلا تھا اس کا بدلا لینے کو آنحضرت ﷺ نے کوچ کیا اور مختلف راستہ اختیار کیا تاکہ بنی لحیان یہ نہ سمجھیں کہ ان پر چڑھائی ہوتی ہے۔ مگر جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کی خبر پہنچ گئی تتھی اور وہ پہاڑوں میں جا چھپے تھے۔ وہ سو سوار آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے معہ سواروں کے عسفان پر قیام کیا اور پھر واپس تشریف لے آئے۔ 35۔ غزوہ ذی قرد یا غزوہ غابہ ربیع الاخر 6 ہجری : غابہ۔ ایک گاؤں ہے مدینہ پاس شام کی طرف۔ عیینہ بن حصن الفراری نے بنی غطفان کے سوار لے کر مقام غابہ میں آنحضرت ﷺ کے اونٹوں کو لوٹ لیا اور وہاں ایک آدمی بنی غفار میں کا معہ جو اپنی بیوی کے ساتھ تھا اس کو مار ڈالا اور اس کی بیوی اور اونٹوں کو لے گئے۔ سلمہ بن عمرو بن الاکوع نے ان کا تعاقب کیا اور اونٹوں کو چھین لیا۔ جب یہ خبر مدینہ میں پہنچی تو لوگ آنحضرت ﷺ کے پاس جمع ہوگئے تاکہ ان کو سزا دیں۔ آنحضرت ﷺ نے سعد بن زید کو سردار کر کے ان لوگوں کے تعاقب میں بھیجا۔ کچھ خفیف سی لڑائی ہوئی اور آدمی مار گئے۔ ان لوگوں کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ گئے۔ سعد ابن زید کے روانہ ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ خود بھی روانہ ہوئے اور ذی قرد تک جو ایک چشمہ کا نام ہے پہنچے اور پھر سب لوگ واپس چلے آئے۔ 36۔ سریہ عکاشہ ربیع الاخر 6 ہجری : عمر مرزوق۔ ایک چشمہ پانی کا ہے بنی اسد میں قید سے دو منزل۔ عکاشہ ابن محصن الاسدی چالیس آدمیوں کے ساتھ اس طرف روانہ ہوئے۔ اس طرف اعراب یعنی گنوار و عرب رہتے تھے غالباً انہی کی تنبیہ و تادیب کو گئے ہوں گے وہ لوگ بھاگ گئے اور عکاشہ ان کے دو سو اونٹ پکڑ لائے۔ 37۔ سریہ ذی القصہ یا سریہ بنی ثعلبہ ربیع الاخر 6 ہجری : ذی القصہ۔ ایک گاؤں ہے مدینہ سے چوبیس منزل۔ آنحضرت ﷺ نے دس آدمی بنی ثعلبہ کے پاس روانہ کئے تھے اور محمد بن سلمہ ان کے سرادر تھے ۔ یہ لوگ ذی القصہ میں رات کو رہے مگر رات کو وہاں کے سو آدمیوں نے ان کو گھیر کے تیروں سے مار کر مار ڈالا صرف محمد بن مسلمہ بچے ، مگر زخمی ہوئے۔ صبح کو ایک شخص انہیں اٹھا کر مدینہ لے آیا۔ 38۔ سریہ ذی القصہ ربیع الاخر 6 ہجری : اس واقعہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے ابو عبیدہ بن الجراح کو چالیس آدمی دے کر ان لوگوں کو سزا دینے کے لئے بھیجا مگر وہ سب پہاڑوں میں بھاگ گئے ان کا گلا سڑا اسباب جو وہ گیا تھا اس کو ابو عبیدہ لوٹ لائے۔ 39۔ سریہ جموم ربیع الاخر 6 ہجری : جموم۔ ایک مقام ہے بطن نخل میں مدینہ سے چار مغل ۔ زید ابن حارثہ بطور گشت کے اس طرف گئے۔ قوم مزینہ کی ایک عورت نے جس کا نام حلیمہ تھا بنو سلیم کی کچھ مخبری کی جس پر زید نے اس محلہ کو گھیر لیا ان کے اونٹ چھین لئے اور چند کو قید کرلیا جن میں حلیمہ کا شوہر بھی تھا۔ مگر آنحضرت ﷺ نے اس کے شوہر کو چھوڑ دیا۔ 40۔ سریہ عیص جمادی الاول 6 ھ : عیص : ایک موضع ہے مدینہ سے چار میل۔ قریش مکہ کا ایک قافلہ جس میں تجارت وغیرہ کا سامان تھا شام سے آتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے زید ابن حارثہ کو بھیجا کہ قریش مکہ تک اس سامان کو نہ جانے دے۔ زید گئے اور انہوں نے قافلہ کا مال و اسباب چھین لیا اور چند آدمی قید کر لئے۔ 41۔ سریہ طرف جمادی الاخر 6 ہجری : طرف۔ ایک چشمہ کا نام ہے مدینہ سے چھتیں میل۔ زید بن حارثہ پندرہ آدمیوں کے ساتھ بطور گشت کے بنو ثعلبہ کی طرف گئے جو اعراب میں سے تھے مگر وہ لوگ بھاگ گئے اور اپنے اونٹ میں چھوڑ گئے جن کو زید لے کر چلے آئے۔ 42۔ سریہ حمسی جمادی الاخر 6 ہجری : حمسی۔ وادی القریٰ سے دو منزل دور ہے اور وادی القریٰ مدینہ سے چھ منزل ہے۔ وحیہ بن خلیفہ الکلبی شام سے واپس آتے تھے۔ جب ارض جذام میں پہنچے تو ہنید بن عوص اور اس کے بیٹھے نے ان کو لوٹ لیا۔ وحیہ نے مدینہ میں آکر یہ حال بیان کیا اور اس درمیان میں بنو نصیب نے جو رفاعہ کی قوم سے تھے اور مسلمان ہوچکے تھے ہیند پر حملہ کیا اور مال واسباب واپس کرلیا۔ آنحضرت ﷺ نے زید ابن حارثہ کو ان کی سزا دہی کو مقرر کیا۔ وہ گئے اور لڑائی میں ہنید اور اس کا بیٹا مارا گیا ان کا اسباب لوٹت لیا گیا اور کچھ لوگ قید ہوئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس ہنگامہ میں بی نصیب کا بھی کچھ اسباب لوٹا گیا اور ان کے کچھ آدمی بھی قید ہوگئے۔ جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کے پاس آکر یہ حال بیان کیا تو آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو متعین کیا انہوں نے جا کر بنی نصیب کا سب مال و اسباب واپس دلا دیا اور قیدیوں کو چھڑ وایا۔ 43۔ سریہ وادی القریٰ رجب 6 ہجری : وادی القریٰ ایک میدان ہے مدینہ اور شام کے درمیان میں وہاں بہت سی بستیاں ہیں۔ زید ابن حارثہ کچھ آدمی لے کر بطور گشت کے اس طرف گئے وہاں کے لوگوں سے لڑائی ہوئی زید کے ساتھ آدمی جو مسلمان تھے مارے گئے اور زید بھی سخت زخمی ہوئے۔ 44۔ سرہ دو متہ الجندل شعبان 6 ہجری : دومتہ الجندل کے لوگ ہمیشہ حملہ کا موقع تکتے تھے چناچہ ہجرت کے چوتھے سال میں بھی ان کے حملہ کا احتمال ہوا تھا اور خود آنحضرت ﷺ نے کوچ فرمایا تھا۔ انہی اسباب سے اس سال عبدالرحمٰن بن عوف کو سردار کر کے ان لوگوں پر بھیجا اور کہا کہ کوئی دغا کی بات مت کرو اور اللہ کی راہ میں لڑو اور کسی نابالغ بچے کو مت مارو اور یہ بھی فرمایا کہ اگر وہ تیری اطاعت کرلیں تو ان کے سردار کی بیٹی سے شادی کرلے ( وہ لوگ عیسائی تھے اور ان کی بیٹیوں سے شادہ کرنا جائز تھا) عرب میں قوموں کو اپنا پورا پورا ساتھی یا حمایتی بنا لینے کے صرف دو طریق سب سے عمدہ ت تھے ایک حلیف ہوجانا۔ دوسرا رشتہ مندی کرلینا۔ اسی پولیٹیکل مصلحت سے آنحضرت ﷺ نے عبدالرحمٰن کو وہاں کے سردار کی بیٹی سے شادی کرلینے کی ہدایت کی تھی اور یہی ایک بڑا سبب تھا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی اخیر عمر میں متعدد قبیلہ کی عورتوں کو اپنے ازواج مطہرات میں داخل کیا تھا باجودیکہ عالم شباب میں بجز ایک بیوی کے کوئی اور نہ تھی۔ بہرحال عبدالرحمٰن بن عوف وہاں گئے تین دن قیام کیا اور اسلام کا وعظ کیا اور مسلمان ہوجانے کی ان کو ہدایت کی اصبح بن عمرو الکلبی جو وہاں کا سردار اور عیسائی تھا مسلمان ہوگیا اور اس کے ساتھ اور بہت سے آدمی مسلمان ہوگئے اور جو مسلمان نہیں ہوئے انہوں نے اطاعت اختیار کی اور جزیہ دینا قبول کرلیا۔ عبدالرحمٰن نے وہاں کے سردار اصبح کی بیٹی سے شادی کرلی اور اسی سے ابو سلمہ پیدا ہوئے۔ 45۔ سریہ فدک شعبان 6 ہجری : فدک۔ ایک گاؤں ہے حجاز میں مدینہ سے دو منزل۔ آنحضرت ﷺ کو خبر پہنچی کہ قبیلہ بنو سعد بن بکر لوگوں کو جمع کر رہے ہیں اور خیبر میں جو یہود جلا وطن کئے گئے تھے ان کو مدد دینے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے علی ؓ کو سو آدمی دے کر ان پر روانہ کیا۔ علی ؓ نے ان پر چھاپہ مارا اور ان کے سو اونٹ اور دو ہزار بکریاں لوٹ لائے اور کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ 46۔ سریہ زید ابن حارثہ یا سریہ ابی ام قرضہ رمضان 6 ہجری : زید ابن حارثہ مسلمانوں کا بہت سا مال لئے ہوئے تجارت کے لئے شام کی طرف جاتے تھے۔ جب وہ وادی القریٰ میں پہنچے تو قوم فرارہ نے جو بنی بدر کی ایک شاخ ہے اور جن کی سردار ام قرفہ تھی اور جس کا نام فاطمہ بنت ربیعہ بن زید الفراریہ تھا سب اسباب لوٹ لیا وہ مدینہ واپس چلے آئے اور آنحضرت ﷺ کو خبر کی۔ آپ ﷺ نے زید ہی کو ان کے سزا دینے کو متعین کیا۔ زید نے دفعۃً ان پر چھاپہ مارا اور ام قرفہ اور اس کی بیٹی کو پکڑ لیا۔ قیس ابن محسر نے جو زید کے لشکر میں تھے اس ضعیف عورت ام قرفہ کو نہایت بری طرح سے مار ڈالا۔ اس کا ایک پاؤں اونٹ سے اور دوسرا پاؤں دوسرے اونٹ سے باندھ کر اونٹوں کو مختلف سمتوں میں ہانکا کہ اس کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ تاریخوں سے یہ بات قابل اطمینان نہیں معلوم ہوتی کہ ام قرفہ کے مار ڈالنے کے بعد اس کے پاؤں اونٹوں سے باندھے تھے یا وہ زندہ تھی اور اونٹوں کے پاؤں سے باندھ کر اس کو مارا تھا۔ مورخین نے اس کا ذکر بھی فرو گزاشت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس بےرحم واقعہ کو اگر درحقیقت وہ ہوا تھا سن کر کیا فرمایا ؟ ضرور قیس ابن محسر پر نہایت درجہ پر خفگی فرمائی ہوگی کیونکہ عموماً آپ ﷺ کی یہ نصیحت تھی کہ عورتیں اور بچے نہ مارے جائیں۔ لہٰذا اس سر یہ کے متعلق ایسی مختلف روایتیں ہیں جس میں سے کسی پر بھی اعتماد نہیں ہو سکتا۔ کامل ابن اثیر میں لکھا ہے کہ اس سریہ کے سردار حضرت ابوبکر تھے اور سلمہ بن الاکوع لڑے تھے اور اس میں ایک ضعیف عورت معہ اس کی بیٹی کے پکڑے جانے کا ذکر ہے مگر اس کے مارے جانے کا ذکر نہیں۔ اس کا نہ مارا جانا زیادہ تر یقین کے قابل ہے کیونکہ صحیح مسلم میں جو حدیث کی نہایت معتبر کتاب ہے اور بخاری کے برابر سمجھی جاتی ہے اس عورت کا پکڑا جانا بیان ہوا ہے مگر مارے جانے کا ذکر نہیں ہے۔ پھر ایک روایت میں ہے کہ اس کی بیٹی حزن بن ابی وہب کو دے دی گئی اور اس سے بن حزن پیدا ہوئے اور ایک روایت میں ہے کہ وہ لڑکی آنحضرت ﷺ نے لے لی اور اس کو مکہ میں بھیج دیا اور اس کے بدلے میں چند مسلمانوں کو جو قریش مکہ کے پاس قید تھے چھڑا لیا۔ 47 : غزوہ ابن رواحہ شوال 6 ہجری : ابو رافع سلام بن ابی الحقیق یہودی کے مرنے یا مارے جانے کے بعد جس کا ذکر ہم نے بہ تحت غزوہ عبداللہ ابن عیتک کیا ہے اسیر ابن رزام یہودی ، یہودیوں کا سردار قرار پایا۔ اس نے عطفان کے یہودیوں کو اپنے ساتھ ملایا اور لڑائی کی تیاری کی۔ آنحضرت ﷺ کو جب یہ خبر ملی تو آپ ﷺ نے عبداللہ ابن رواحہ کو معہ تین اور آدمیوں کے اس خبر کی تحقیق کرنے کو بھیجا۔ جب عبداللہ واپس آئے تو آپ ﷺ نے تیس آدمی ان کے ساتھ کئے اور اسیر ابن رزام کے پاس روانہ کیا۔ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بھیجنا کسی معاہدہ یا صلح یا اور کسی قسم کی گفتگو کے لئے تھا نہ کے لڑائے کے لئے کیونکہ لڑائی کے لئے تیس آدمی نہیں بھیجے جاسکتے تھے۔ عبداللہ بن رواحہ نے اس سے گفتگو کی اور وہ آنحضرت ﷺ کے پاس آنے پر اس لالچ میں راضی ہوا کہ خیبر کی سرداری اس کو مل جائے۔ وہ بھی تیس آدمی اپنے ساتھ لے کر چلا۔ یہ سب اونٹوں پر سوار ہو کر چلے یہودی آگے اور مسلمان ان کے پیچھے بیٹھے۔ جب قرقرۃ میں پہنچے تو اسیر کے دل میں کچھ شبہ ہوا جیسا کہ زادالمعاد میں لکھا ہے اور اس نے عبداللہ کی تلوار پر ہاتھ ڈالا۔ عبداللہ کو بھی شبہ ہوا اور وہ اونٹ پر سے کود پڑے اور اس کے پاؤں پر تلوار ماری اسیر بھی کود پڑا اور خار دار سونٹا عبداللہ کے منہ پر مارا وہ زخمی ہوئے اس ہنگامہ کو دیکھ کر ہر ایک مسلمان نے اپنے ساتھی پر حملہ کیا اور مار ڈالا۔ 48۔ سریہ عرنین شوال 6 ہجری : عرنہ۔ مدینہ کے میدانوں میں سے ایک میدان میں ایک باغ تھا جس کا یہ نام ہے۔ چند کسان عکل اور عرنہ کے آنحضرت ﷺ کے پاس آئے۔ نہایت مفلس اور تباہ حال اور بیمار تھے شاید استسقاء کی بیماری تیل جس کا علاج اونٹ کا دودھ اور پیشاب پینا اور جہاں اونٹ بندھے ہوں وہیں پڑے رہنا ہے۔ انہوں نے جھوٹ بیان کیا کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں ، ہماری مدد کرو۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی چند اونٹنیاں اور چرواہے ان کے ساتھ کردیئے مگر جب وہ حرم کے مقام پر پہنچے ان لوگوں نے جیسا کہ صیحد مسلم میں بیان ہوا ہے ان چرواہوں کی آنکھوں پھوڑ دیں اور ان کو بری طرح مار ڈالا اور اونٹنیاں لے کر چل دیئے۔ جب آنحضرت ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو ان کے تعاقب میں لوگ بھیجے گئے جن کا سردار کرز بن جابر تھا وہ پکڑے گئے۔ ان کی بھی آنکھیں پھوڑی گئیں اور ہاتھ پاؤں کاٹ کر ڈال دیئے گئے کہ وہ مر گئے۔ بخاری میں ہے کہ اس کے بعد آپ ﷺ نے مثلہ کرنے سے منع کیا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ جس طرح ان لوگوں نے چرواہوں کو مارا تھا اسی طرح وہ کس کے حکم سے مارے گئے ؟ مگر اس بات کی بہت سی دلیلیں ہیں کہ ابتدائی زمانہ میں اسلام میں جن اموت کی نسبت کوئی خاص حکم نازل نہیں ہوتا تھا تو اکثر یہودی شریعت کے مطابق عمل کیا جاتات ھا اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ توریت میں لکھا ہے کہ ” و اگر اذیت دیگر رسیدہ باشد انگاہ جان عوض جان باید دادہ شود چشم بعوض چشم دندان بعوض دونداں دست بعوض دست پالبوض پا۔ سوختن بعوض سوختن زخم بعوض زخم لطمہ بعوض لطمہ۔ “ (سفر خروج باب 21 آیت 23 و 24 و 25) غالباً اسی خیال سے ان لوگوں نے بطور قصاص کے ان کو اسی طرح مارا جس طرح کہ ان لوگوں نے چرواہوں کو مارا تھا۔ 49۔ سریہ عمرو بن امیہ شوال 6 ہجری : ابو سفیان ابن حرب نے مکہ سے ایک آدمی مدینہ میں بھیجا کہ کسی بہانہ سے آنحضرت ﷺ کو قتل کردے۔ وہ معہ خنجر جو اس کے پاس چھپا ہوا تھا پکڑا گیا۔ مگر آنحضرت ﷺ نے اس شرط پر کہ سچ حال بتا دے اس کو امن دیا۔ چناچہ اس نے بتا دیا اور اس کو چھوڑ دیا کہ وہ مکہ چلا گیا۔ مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ اس پر آنحضرت ﷺ نے ابی سفیان کے قتلن کے لئے عمرو بن امیہ اور سلمہ ابن اسلم کو متعین کر کے بھیجا وہ مکہ میں پہنچے لیکن ان کا وہاں جانا کھل گیا۔ لوگ ان پر دوڑے مگر وہ وہاں سے بچ کر نکل آئے۔ 50۔ غزوہ حدیبیہ ذیقعدہ 6 ہجری : حدیبیہ ۔ ایک گاؤں ہے اور اس گاؤں میں اس نام کا ایک کنواں ہے اسی کنوئیں کے نام سے وہ گاؤں مشہور ہوگیا ہے۔ یہاں سے مکہ ایک منزل ہے۔ اس سال آنحضرت ﷺ نے مکہ میں جا کر حج وعمرہ ادا کرنے کا ارادہ کیا اور کسی سے لڑنے کا مطلق ارادہ نہ تھا قربانی کے لئے اونٹ اپنے ہمراہ لئے تھے اور کل آدمی جو ساتھ تھے ان کی تعداد ایک ہزار چار تھی۔ جب آنحضرت ﷺ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش مکہ کو اندیشہ ہوا اور مکہ میں آنے سے روکا دونوں طرف سے پیغام سلام ہوئے اور لوگ آئق گئے مگر قریش نے نہ مانا۔ آخر کار آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو قریش مکہ کے پاس بھیجا۔ قریش ان کی فہمائش پر بھی راضی نہ ہوئے بلکہ ان کو بھی قید کررکھا۔ آنحضرت ﷺ کو خبر پہنچی کہ حضرت عثمان ؓ کو قتل کر ڈالا ہے اس پر آنحضرت ﷺ نے لڑنے کا ارادہ کیا اور سب لوگوں سے لڑنے پر اور مرنے مارنے پر بیعت لی۔ یہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی اور بیعت الرضوان کے نام سے مشہور ہے مگر بعد کو معلوم ہوا کہ حضرت عثمان ؓ کے قتل ہونے کی جو خبر مشہور ہوئی تھی وہ غلط تھی۔ اس کے بعد قریش مکہ نے سہیل ابن عمرو کو صلح کا پیغام دے کر بھیجا اور صلح اس بات پر منحصر تھی کہ اس سال آنحضرت ﷺ مکہ میں حج وعمرہ کرنے کو نہ آئیں اور واپس چلے جائیں۔ بعد گفتگو کے آنحضرت ﷺ اس پر راضی ہوگئے اور حضرت علی ؓ کو عہد نامہ لکھنے کو بلایا۔ جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ لکھ ” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم “ سہیل نے کہا تو اس کو نہیں جانتے صرف یہ لکھو ” باسمک اللھم “ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہی لکھو۔ پھر آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو فرمایا کہ لکھ ” ھذاما صالح علیہ محمد بن عبداللہ “ غرضیکہ اس سال واپس چلے آنے کے علاوہ اس بات پر صلح ہوئی کہ دس برس تک لڑائی موقوف رہے ، سب لوگ امن میں رہیں اور لڑائی نہ ہو اور یہ بھی معاہدہ ہوا کہ اگر کوئی شخص قریش مکہ کا ولا اجازت اپنے ولی کے آنحضرت ﷺ کے پاس چلا آئے تو آپ ﷺ اس کو قریش مکہ کے پاس بھیج دیں گے اور اگر آنحضرت ﷺ کے ساتھی قریشیوں میں سے کوئی شخص مکہ میں قریشیوں کے پاس چلا جائے تو اس کو قریش مکہ واپس نہیں دیں گے۔ بہر حال دونوں طرف سے عہد نامہ کی تصدیق ہوگئی۔ آنحضرت ﷺ نے اسی مقام پر قربانی کے اونٹ ذبح کئے اور حج وعمرہ کا ارادہ موقوف کیا اور مدینہ کو واپس لے آئے۔ 51۔ غزوہ خیبر جمادی الاخر 7 ہجری : خیبر ۔ ایک معروف و مشہور بہت بڑا شہر ہے اس میں متعدد قلعے نہایت مستحکم تھے۔ مدینہ سے آٹھ منزل شام کی طرف ہے۔ اہل خیبر جن میں وہ تمام یہودی بھی جا ملے تھے جو مدینہ سے جلا وطن کئے گئے تھے ہمیشہ مسلمانوں سے لڑنے کی تیاریاں کرتے رہتے تھے اور انہوں نے بنی اسدا اور بنی عطفان کو اپنا حلیف کرلیا تھا اور اپنے مضبوط قلعوں پر نازاں تھے۔ جب ان لوگوں کی آمادگی جنگ نے زیادہ شہرت پائی تو آنحضرت ﷺ نے اس فساد کے مٹانے کا ارادہ کیا اور مدینہ سے معہ لشکر کے خیبر کی طرف کوچ کیا۔ بنی اسد جن کا سردار طلیحہ بن خویلد اسدی تھا اور بنی عطفان جن کا سردار عیینہ بن حصن بن بدر فزاری تھا خیبر والوں کی مدد کو آپہنچے خیبر والوں کے پاس وس مستحکم قلعے تھے اور ان سب نے اپنے قلعوں کو بند کرلیا اور لڑائی پر مستعدد ہوگئے۔ آنحضرت ﷺ بھی معہ لشکر کے وہاں پہنچے اور ایک مہینہ تک لڑائی جا ری رہی۔ سب سے پہلے حصن ناعم فتح ہوا اور پھر بعض اور قلعے بھی فتح ہوئے اس درمیان میں بنی اسد اور بنی عطفان خیبر والوں سے علیحدہ ہوگئے اور صرف اہل خیبر برابر لڑتے رہے اور سخت لڑائیں ہوتی رہیں حصن ابو طلیح اور حصن السلالم نہایت مضبوط قلعے تھے جن کو حضرت علی ؓ نے فتح کیا۔ اس وقت یہودیوں نے امن چاہا اور تین امر پر صلح ہوئی کہ تمام اہل خیبر کو اور ان کے اہل و عیال کو جان کی امان دی جائے۔ دوسرے یہ کہ تمام اہل خیبر اپنا مال و اسباب بطور معاوضہ جنگ کے دے دیں لیکن اگر کوئی شخص اپنا مال چھپا رکھے تو اس سے یہ معاہدہ یعنی جان کے اور اہل و عیال کے امن کا قائم نہ رہے گا۔ تیسرے یہ کہ تمام زمینیں خیبر کی ان کی ملکیت نہ رہیں گی مگر وہ لوگ اپنے گھروں میں آباد رہیں گے اور زمینوں پر بھی قابض رہیں گے اور ان کی پیداوار کا نصف حصہ بطور خراج کے دیا کریں گے اور کسی بد عہدی پر آنحضرت ﷺ کو اختیار ہوگا کہ ان کو جلا وطن فرما دیں۔ صرف کنانہ بن ربیع ابن ابی الحقیق نے مال کے دینے میں دغابازغ کی اور نہایت بیش قیمت مال چھپا رکھا جو کہ بعد تلاش کے دستیاب ہوا۔ وہ مارا گیا اور اس کے اہل و عیال قید ہوگئے۔ 52۔ غزوہ وادی القریٰ جمادی الاخر 7 ہجری : جب آنحضرت ﷺ نے خیبر سے مراجعت کی تو وادی القریٰ میں پہنچے اور وہاں چار دن ٹھہرے اور اہل تیمانے اسلام قبول نہیں کیا اور جزیہ دینے پر صلح کرلی۔ 53۔ سریہ تربہ شعبان 7 ہجری : تربہ۔ مکلہ کے قریب دو منزل پر ایک جگہ ہے۔ حضرت عمر ؓ تیس آدمی لے کر اس طرف کو گئے مگر وہاں کے لوگ بھاگ گئے۔ کوئی نہیں ملا اور حضرت عمر ؓ واپس آگئے۔ 54۔ سریہ حضرت ابوبکر شعبان 7 ہجری : اس سریہ میں حضرت ابوبکر ؓ کچھ آدمی لے کر بنی کلاب کی طرف گئے کچھ خفیف سی لڑائی ہوئی کچھ آدمی مرے ، کچھ قید ہوگئے۔ 55۔ سریہ بشیر ابن سعد شعبان 7 ہجری : اس سریہ میں بشیر ابن سعد بنی مرہ پر جو فدک میں رہتے تھے تیس آدمی لے کر گئے اور خفیف لڑائی کے بعد واپس آگئے۔ 56۔ سریہ طالب بن عبداللہ اللیثی رمضان 7 ہجری : یہ سریہ نجد کی طرف منتقہ پر جو مدینہ سے آٹھ منزل ہے بھیجا گیا تھا اور دو سو تیس آدمی لشکر میں تھے مگر وہاں بہت ہی خفیف سی لڑائی ہوئی اور پھر وہ لوگ واپس آگئے۔ 57۔ سریہ اسماہ بن زید رمضان 7 ہجری : یہ سریہ خربہ کی طرف بھیجا گیا تھا جو ضریہ کی طرف ہے۔ یہاں کسی سے لڑائی نہیں ہوئیں مگر ایک شخص اسامہ کو ملا جس پر انہوں نے تلوار کھینچی مگر اس نے کلمہ پڑھا اور کہا لا الہٰ الا اللہ مگر اسامہ نے اس کو مار ڈالا اور آنحضرت ﷺ نے اس بات پر نہایت خفگی ظاہر فرمائی۔ 58۔ سریہ بشیر بن سعد الانصاری شوال 7 ہجری : یہ سریہ یمن اور حیاب جس کو قزارہ اور عذرہ کہتے ہیں اور بنی عطفان سے علاقہ رکھتے ہیں جو خیبر والوں کے ساتھ لڑائی میں شریک ہوئے تھے بھیجا گیا تھا وہاں کے لوگ بھاگ گئے اور ان کا مال و اسباب ہاتھ آیا اور صصرف دو آدمی قید کئے گئے۔ بعد اس کے آنحضرت ﷺ مکہ میں تشریف لے گئے اور عمرہ قضا ادا کیا۔ 59۔ سریہ ابن ابیالعوجاء السلمی ذی الحجہ 7 ہجری : یہ سریہ بنی سلیم کی طرف بھیجا گیا تھا ، وہاں سخت لڑائی ہوئی اور دشمن چاروں طرف سے ٹوٹ پڑے اور سب لوگ مارے گئے اور ابن ابی العوجاء بھی زخمی ہوئے اور مردوں میں پڑے رہ گئے اور پھر ان میں سے اٹھا لائے گئے۔ 60۔ سریہ طالب بن عبداللہ اللیثی صفر 7 ہجری : یہ سریہ بنی الملوح پر جو کدید میں رہتے تھے کیا گیا تھا۔ وہاں کچھ لڑائی نہیں ہوئی مگر کچھ اسباب ہاتھ آیا۔ اسی مہینے میں خالد بن ولید اور عثمان بن ابی طلحہ اور عمرو بن العاص مکہ سے مدینہ میں چلے آئے اور مسلمان ہوگئے۔ 61۔ سریہ طالب بن عبداللہ صفر 7 ہجری : یہ سریہ بھی فدک کی جانب بھیجا گیا تھا انہیں لوگوں پر جن پر پشیر بن سعد بھجے گئے تھے ان سے لڑائی ہوئی کچھ لوگ مارے گئے اور کچھ اسباب لوٹ لیا گیا۔ 62۔ سریہ شجاع بن وہب الاسدی ربیع الاول 8 ہجری : یہ سریہ ذات عرق کی طرف بھیجا گیا تھا جو مدینہ سے پانچ منزل ہے اور جہاں ہوازمن نے لوگ جمع کئے تھے۔ وہاں کچھ لڑائی نہیں ہوئی مگر ان کے اونٹ لوٹ لائے۔ 63۔ سریہ کعب ابن عمیر الغفاری ربیع الاول 8 ہجری : یہ سریہ ذار اطلع کی طرف بھیجا گیا تھا جو ذات القریٰ کے قریب ہے۔ ذات اطلع میں نہایت کثرت سے لوگ لڑنے کے لئے جمع تھے نہایت سخت لڑائی ہوئی اور جو لوگ بھیجے گئے وہ سب مار ڈالے گئے۔ جب یہ خبر آنحضرت ﷺ کو پہنچی تو ایک بڑا لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا مگر معلوم ہوا کہ وہ لوگ اور سمت کو چلے گئے۔ 64۔ سریہ موتہ یا سریہ زید ابن حارثہ جمادی الاول 8 ہجری : موتہ۔ ایک قصبہ ہے شام کے علاقہ میں دمشق سے ورے۔ آنحضرت ﷺ نے حارث بن امیر الازردی کو ہرقل شہنشاہ روم کے نام ایک خط دے کر بصرے کو روانہ کیا تھا جب کہ وہ موتہ میں پہنچے تو شرجیل بن عمرو الغسانی نے تعرض کیا اور ان کو مار ڈالا۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے تین ہزار آدمیوں کا لشکر جس کے سردار زید بن حارثہ تھے موتہ پر روانہ کیا وہاں نہایت سخت لڑائی ہوئی اور زید ابن حارثہ اور جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ جن کے ہاتھ میں فوج کا نشان تھا یکے بعد دیگرے لڑ کر ارے گئے اس پر فوج کا نشان خالد بن ولید نے لیا اور نہایت سخت لڑائی کے بعد خالد نے فتح پائی۔ اس لڑائی میں تمام عیسائی قومیں جو اس نواح میں رہتی تھیں شامل تھیں اور ہرقل کی فوج بھی جن اس زمانہ میں روم یعنی قسطنطنیہ کا شہنشاہ تھا اور تمام صوبہ شام پر اس کی حکومت تھی اور اسی زمانہ میں فارس کو بھی فتح کرچکا تھا ان لوگوں کے ساتھ لڑائی میں شریک تھا۔ 65۔ سریہ عمرو بن العاص جمادی الاخر 8 ہجری : یہ سریہ ذات السلاسل کے نام سے مشہور ہے۔ سلسل ایک چشمہ کا نام تھا۔ ذات القریٰ کے نزدیک مدینہ سے دس منزل پر۔ بنی قضاعہ نے کچھ لوگ لڑنے کے لئے جمع کئے تھے۔ جب یہ خبر آنحضرت ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے عمرو بن العاص کو تین سو آدمی دے کر اس طرف روانہ کیا۔ جب وہ سلاسل کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ دشمنوں نے بہت کثرت سے لوگ جمع کئے ہیں اس کی خبر آنحضرت ﷺ کو بھیجی۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کو بھی روانہ کیا اور دو سو آدمی اور بھیجے۔ مگر بنی قضاعہ آخر کار بھاگ گئے اور جمعیت متفرق ہوگئی۔ 66۔ سریہ ابی عبیدہ ابن جراح رجب 8 ہجری : اس سریہ کا نام سریہ خبط بھی ہے۔ کیونکہ اس میں بہ سبب نہ رہنے رسد کے خبط کو غالباً کسی درخت کا پھل ہے پانی میں بھگو کر کھایا تھا۔ اسی سریہ میں لوگوں کو دریا کے کنارہ سے ایک بڑی مچھلی ہاتھ آگئی تھی جس کو لوگوں نے کئی دن تک کھایا تھا۔ بخاری نے اس غزوہ کا نام سیف البحر بیان کیا ہے۔ مگر تمام تاریخوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیف البحر جو سال اول میں ہوا تھا وہ علیحدہ سریہ ہے اور یہ علیحدہ سریہ ہے۔ اس سریہ میں تین سو آدمی تھے اور دریا کے کنارہ پر چند روز ٹھہرے رہے کسی سے کچھ لڑائی نہیں ہوئی اور سب لوگ واپس آگئے۔ 67۔ سریہ ابی قتادہ الانصاری شعبان 8 ہجری : اس سریہ میں صرف پندرہ آدمی تھے اور بمقام خضرہ جو نجد میں ہے بنی عطفان کے لوگوں کی طرف بھیجا گیا تھا۔ کچھ لڑائی ہوئی اور کچھ لوگ قید کر لئے گئے اور دو سو اونٹ اور ہزار بکریاں غنیمت میں ہاتھ آئیں۔ 68۔ سریہ ابی قتادہ رمضان 8 ہجری : اس سریہ میں صرف آٹھ آدمی تھے اور یہ اضم کی طرف بھیجا گیا تھا جو ایک چشمہ ہے درمیان مکہ اور یمامہ کے اور مدینہ سے تین منزل ہے۔ یہ سریہ صرف اس لئے بھیجا گیا تھا کہ قریش مکہ کی کچھ خبر ملے اور نیز مکہ والے خیال کریں کہ آنحضرت ﷺ اس طرف تشریف لے جائیں گے حالانکہ آنحضرت ﷺ کا ارادہ قریش پر حملہ کرنے کا تھا۔ ان آٹھ آدمیوں میں محلم بن جسامہ بھی تھا اس سے ایک شخص نے آکر مسلمانوں کی طرح سلام علیکم کی اس نے اس کو مار ڈالا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی خفگی ہوئی اور حکم ہوا کہ جو کوئی مسلمانوں کی طرح سلام علیکم کرے اس کو کافر نہ سمجھو۔ بعض کتابوں میں اس سریہ کو ابن ابی حدور کی طرف منسوب کیا گیا ہے مگر وہ صحیح نہیں ہے۔ 69۔ غزوہ فتح مکہ رمضان 8 ہجری : حدیبیہ میں جو قیرش مکہ سے صلح ہوئی تھی اور یہ بات ٹھہری تھی کہ دس برد تک آپس میں لڑائی نہ ہو اور امن رہے اس وقت یہ بھی معاہدہ ہوا تھا کہ جو قومیں چاہیں اس معاہدہ میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک ہوجائیں اور جو قومیں چاہیں قریش کے معاہدہ میں داخل ہوجائیں۔ بنو خزاعہ جو مسلمان ہوگئے تھے یا اسلام کی طرف راغب تھے۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ معاہدہ میں شریک ہوئے اور بنو بکر قریش کے معاہدہ میں داخل ہوئے۔ اسلام سے پہلے ان دونوں قوموں میں نہایت عداوت اور جنگ و جدل تھی۔ مگر شروع زمانہ اسلام میں وہ جنگ و جدل موقوف ہوچکی تھی۔ اس معاہدہ کے بعد بنو بکر نے اور ان کے ساتھ قریش نے اس معاہدہ کو توڑ دیا اور نوفل بن معاویہ الدیلمی ایک جماعت لے کر نکلا اور بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور کچھ آدمی مارے گئے اور باہم لڑائیں ہوتی رہیں۔ قریش مکہ نے اعلانیہ بنو بکر کو ہتھیاروں کے بھیجنے سے مدد کی اور قریش کے لوگ بھی خفیہ جا کر لڑائی میں شریک ہوئے۔ منجملہ ان کے صفوان بن امیہ اور جو یطب بن عبدالعزیٰ اور مکرز بن حفص بھی تھا بنو خزاعہ نہایت عاجز ہوگئے اور انہوں نے حرم کعبہ میں پناہ لی اور نوفل نے وہاں بھی ان کا تعاقب کرنا چاہا۔ بنو بکر کے قبیلہ کے لوگوں نے نوفل سے کہا اللہ کے حرم کا پاس کرنا ضروری ہے نوفل نے کہا کہ آج کے دن خدا کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم کو اپنا بدلہ لینا چاہئے بنو خزاعہ نے لاچار بدیل بن ورقاء کی پناہ لی اور ایک شخص عمرو بن سالم آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور عہد کے توڑنے کے حالات بیان کئے اور بنی خزاعہ کی امداد کا خواہ ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے لشکر کے جمع کرنے کا حکم دیا اور قریش سے لڑنے اور ان کو ان کی عہد شکنی کی سزا دینے کو آمادہ ہوئے۔ یہ خبر سن کر ابو سفیان مدینہ میں آیا اور یہ بات چاہی کہ اس قریش نے بنو خزاعہ کے بہت سے لوگوں کو قتل کردیا تھا اور ان پر بےانتہا زیادتی کی تھی پس ممکن نہیں تھا کہ اس ظلم سے درگزر کی جاتی اور اس کی سزا نہ دی جاتی اور تمام خونریزی سے جو بنی خزاعہ نے کی تھی درگزر کر کے نیا عہد نامہ کیا جاتا۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب ابو سفیان کو معلوم ہوا کہ قریشن مکہ پر ضرور لشکر کشی ہوگی اور انحضرت ﷺ کے لشکر کو دیکھ کر وہ حیران ہوگیا تو اس کو یقین ہوا کہ قریش مارے جائیں گے اور مکہ فتح ہوجائے گا غالباً اسی خوف سے اس نے اپنا مسلمان ہوجانا بھی ظاہر کیا اور شاید دل میں بھی باتیں سننے سے اور حضرت عباس ؓ کی نصیحت سے کچھ کچا پکا مسلمان ہو بھی گیا ہو مگر جب وہ مکہ واپس جانے لگا تو آنحضرت ﷺ نے اس سے کہہ دیا کہ لڑائی کے زمانہ میں جو شخص تیرے گھر پناہ لے گا اس کو امن دیا جائے گا۔ غرضیکہ آنحضرت ﷺ نے کوچ فرمایا اور تمام لشکر روانہ ہوا۔ جب لشکر قریب مکہ کے پہنچا تو آنحضرت ﷺ نے مشتہر کردیا اور مکہ میں بھی لوگوں نے مشتہر کیا کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا اور جو شخص حرم کعبہ میں پناہ لے گا جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا ان سب کو امن دیا جائے گا مگر نو آدمیوں کے نام بتائے کہ وہ قتل کئے جائیں گے ان نو آدمیوں کے یہ نام ہیں : (1) عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ، (2) عکرمہ بن ابی جہل ، (3) عبدالعزیٰ بن خطل ، (4) الحارث بن نفیل بن وہب ، (5) مقیس بن صبابہ ، (6) ہبار ابن الاسود ، (7 ، 8) دو گانے والی عورتیں ابن خطل کی ، (9) سارہ مولاۃ بنی عبدالمطلب۔ غرضیکہ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے فتح عظیم عنایت کی اور آنحضرت ﷺ بہ فتح و نصرت مکہ میں داخل ہوئے۔ جو تکلیفیں کہ لوگوں نے آنحضرت ﷺ کو دی تھیں ان کے سبب لوگوں کو خیال تھا کہ آنحضرت ان کے ساتھ کیا کریں گے مگر آنحضرت ﷺ نے سب لوگوں کو امن دیا اور کسی سے بدلہ نہیں لیا اور ایک ایسا فصیح اور بلیغ اور رحم کا بھرا ہوا خطبہ پڑھا جو زمانہ میں یاد گار ہے۔ جن نو آدمیوں کے قتل کا حکم دیا تھا ان میں سے ابن ابی سرح کو حضرت عثمان لے کر آئے اور امن کی درخواست کی ، اس کو امن دیا اور وہ مسلمان ہوگیا۔ عکرمہ بن ابی جہل کو وہ مفرور ہوگیا تھا امن دینے کے لئے اس کی بیوی نے عرض کیا آپ نے اس کو بھی امن دیا وہ واپس آیا اور مسلمان ہوگا ہبار بن الاسود بھی بھاگ گیا تھا اور یہ وہ شخص تھا جس نے آنحضرت ﷺ کی بیٹی حضرت زینب ؓ کو دھکا دیا تھا اور اوہ ایک پتھر پر گر پڑی تھیں اور اسقاط حمل ہوگیا تھا اس کو بھی آنحضرت ﷺ نے امن دیا اور سارہ اور ان دو گانے والیوں میں سے ایک بھی آنحضرت ﷺ نے امن دیا اور وہ دونوں مسلمان ہوگئیں اور ان میں سے صرف چار اشخاص مارے گئے۔ ایک ابن خطل ، الحارث ، مقیس اور ایک دونوں گانے والیوں میں سے ۔ عبداللہ ابن خطل پہلے مسلمان ہوگیا تھا پھر مرتد ہوگیا اس نے حالت اسلام میں ایک مسلمان غلام کو مار ڈالا تھا اور اس کا خون اس پر تھا اور مقیس بن صبابہ بھی پہلے مسلمان ہوگیا تھا پھر مرتد ہوگیا تھا اور کافروں سے جا ملا تھا اور اس نے ایک انصاری کو مار ڈالا تھا اور اس کا خون اس پر تھا۔ الحارث اور ان دونوں گانے والیوں میں سے ایک گانے والی کے مارے جانے کی وجہ ہم کو معلوم نہیں ہوئی۔ بعض علماء نے سنا کہ ان دونوں کو بھی بعوض کسی خون کے قصاصاً مار ڈالا گیا۔ الا ہم کو کہیں اس کی تصریح نہیں ملی۔ مگر یقین ہے کہ ان دونوں پر کوئی ایسا جرم تھا کہ جس کی سزا بجز قتل کے اور کچھ نہ تھی۔ خصوصاً ان دونوں گانے والیوں میں سے ایک کے مارے جانے کی ضرور کوئی ایسی وجہ ہوگی جس سے اس کا قتل کرنا لازمی ہوگا کیونکہ آنحضرت ﷺ کی ہمیشہ ہدایت تھی کہ کوئی عورت بیز قصاص کے اور کسی طرح پر نہ ماری جائے۔ فتح مکہ کے بعد یہ آیت نازل ہوئی : ” فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ 1ؕ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ 1ۙۗ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا “ جس نے تمام انسانوں کو لونڈی اور غلام ہونے سے آزادی دی ہے اور لڑائی کے تمام قیدیوں کی جانوں کو بچایا ہے کہ اس کے بعد لڑئای کا کوئی قیدی زن و مرد لڑکا اور لڑائی لونڈی اور غلام نہیں بنائے جاسکتے اور لڑائی کے قیدیوں کے ساتھ بجز اس کہ ان پر احسان کر کے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کے لئے یہ ایک ایسا فخر ہے کہ کسی اور مذہب کے لئے نہیں ہے۔ 70۔ سریہ خالد بن الولید رمضان 8 ہجری : فتح مکہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے خالد بن ولید کو عزیٰ بت کے توڑنے کے لئے جو بنی کنانہ کا بت تھا بھیجا اور وہ توڑ کر چلے آئے۔ 71۔ سریہ عمرو بن العاص رمضان 8 ہجری : سواع جو یذیل کی قوم کا ایک بت مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر تھا اس کے توڑنے کو عمرو بن العاص مقرر ہوئے اور وہ توڑ کے چلے آئے۔ 72۔ سریہ سعد بن یزید الاشہلی رمضان 8 ہجری : منات جو ایک نہایت مشہور بت تھا بنی اوس اور خزرج کا مسال میں تھا اس کے توڑنے کو آنحضرت ﷺ نے سعد کو مقرر کیا اور وہ بیس سوار لے کر وہاں گئے اور اس کو توڑ کر چلے آئے۔ ان بتوں کے توڑنے کے وقت جو قصے کتابوں میں لکھے ہیں وہ محض کہانیاں ہیں اور نہ ان کی کوئی معتبر سند ہے اور مطلق اعتبار کے لائق نہیں ہیں۔ 73۔ سریہ خالد ابن ولید شوال 8 ہجری : جب کہ خالد بن ولید عزیٰ بت کو توڑ کر مکہ می واپس آئے تو آنحضرت ﷺ نے تین سو پچاس آدمیوں کے ساتھ ان کو بنی جزیمہ کی طرف اسلام کی ہدایت کرنے کے لئے بھیجا ، لڑنے کے لئے نہیں بھیجا تھا۔ مگر بنی جذیمہ پہلے سے مسلمان ہوگئے تھے اور انہوں نے ایک آدھ مسجد بھی اپنے ہاں نماز پڑھنے کے لئے بنالی تھی مگر وہ ہتھیار بند ہو کر مقابلہ کو آئے۔ جب ان سے پوچھا کہ تم مسلح ہو کر کیوں آئے ہو ؟ تو انہوں نے کہا کہ عرب کی ایک قوم سے اور ہم سے دشمنی ہے ہم کو خوف ہوا کہ وہی قوم ہم پر چڑھ کر نہ آئی ہو۔ ان سے کہا گیا کہ ہتھیار رکھ دو ، انہوں نے ہتھیار رکھ دیئے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ تم مسلمان ہوگئے ہو تو انہوں نے بجائے اس کے کہ کہتے ” اسلمنا “ انہوں نے کہا ” صبانا صبان “ اس کہنے سے ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے اپنے پہلا مذہب چھوڑ دیا ہے لیکن جب کوئی مسلمان اس لفظ کو کہے تو اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم کافر ہوگئے ہیں۔ چناچہ مسلمانوں نے یہی اس کا مطلب سمجھا اور ان کو قید کرلیا اور رات کے وقت مسلمانوں کر ہر گروہ نے علیحدہ علیحدہ چند چند قیدی پنی اپنی حفاظت میں کر لئے۔ صبح کو خالد بن ولید نے حکم دیا کہ جس کے پاس جو قیدی ہیں ان کو مار ڈالے۔ بنو سلیم کے پاس جتنے قیدی تھے ان کو انہوں نے مار ڈالا۔ مگر مہاجرین اور انصار کے پاس جس قدر قیدی تھے انہوں نے قتل نہیں کیا بلکہ ان سب کو چھوڑ دیا۔ جب یہ خبر آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچی تو آپ ﷺ نے خالد بن ولید کے کام سے نہایت ناراضگی کا اظہار کیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ ! جو کچھ خالد نے کیا میں اس سے بری ہوں اور حضرت علی ؓ کو مقرر فرمایا کہ جو لوگ مارے گئے ہیں ان کی دیت ادا کریں۔ 74۔ غزوہ حنین یا غزوہ اوطاس یا غزوہ ہوازن شوال 8 ہجری : حنین اور اوطاس دو مقاموں کا نام ہے جو مکہ اور طائف کہ بیچ میں ہیں اور ہوازن کی قوم سے اس مقام پر لڑائی ہوئی تھی اسی سبب سے اس غزوہ کے یہ نام ہوئے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد مالک ابن عوف نضری نے آنحضرت ﷺ سے لڑنے کے لئے لوگوں کو جمع کیا اور ہوازن اور بنی ثقیف اور بنی مضر اور بنی جشم اور کچھ لوگ بنی ہلال کے اور بہت سے لوگ مختلف قبائل کے اس کے پاس جمع ہوگئے۔ یہ خبر سن کر آنحضرت ﷺ نے بھی لڑائی کی تیاری کی اور بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر لے کر کوچ فرمایا۔ مالک ابن عوف نضری بھی انا لشکر لے کر چل چکا تھا اور اوطاس کے میدان میں پہنچ گیا تھا۔ وہ ایک ایسی تنگ اور پتھریلی اور رتیلی زمین تھی کہ وہاں گھوڑوں کا جانا اور لڑنا نہایت مشکل تھا۔ انہوں نے وہیں اپنا لشکر ڈالا اور اس کے گڑھوں میں اور ان تنگ رستوں کے ادھر ادھر جن میں گزرنا نہایت مشکل تھا چھپ بیٹھے۔ آنحضرت ﷺ کا لشکر جب وہاں پہنچا تو بغیر ترتیب لڑائی کے اور بغیر کسی خیال کے اس دشوار گزر راستہ میں سے گزرنا شروع کیا اور کچھ لوگ اس سے آگے بڑھ کر اور ہوازن والوں کی جہاں بھیڑ اور عورتیں اور مال و اسباب تھا اس طرف جانے کا ارادہ کیا۔ اس وقت دشمن اپنے کمین گاہوں میں سے جہاں وہ چھپے ہوئے تھے نکل پڑے اور لوگ بھاگ نکلے یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کے پاس بھی بہت تھوڑے آدمی رہ گئے۔ غالباً لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ آنحضرت ﷺ بھی قتل ہوگئے۔ جب یہ حال دیکھا تو آنحضرت ﷺ ایک طرف اونچی جگہ پر جا کھڑے ہوئے اور لوگوں کو پکارا کہ میں موجود ہوں اور حضرت عباس ؓ نے بھی نہایت بلند آواز سے لوگوں کو ڈانٹا اور کہا کہ کہاں بھاگے جاتے ہو۔ حضرت عباس ؓ نے یہ بھی کہ محمد ﷺ زندہ ہیں۔ ان کا یہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے قتل ہوجانے کا خیال کیا تھا۔ غرضیکہ سب لوگ پھر پلٹے اور اکھٹے ہوگئے اور نہایت سخت لڑائی کے بعد دشمنوں کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ نکلے۔ 75۔ سریہ ابی عامر الاشعری شوال 8 ہجری : اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ابو عامر اشعری کو ان لوگوں کے تعاقب میں بھیجا جو اوطاس کی جانب بھاگے تھے۔ ان لوگوں سے بھی کچھ لڑائی ہوئی اور ابو عامر ایک تیر کے زخم سے مر گئے اور مالک بن عوف نے ثقیف کے ایک قلعہ میں جا کر پناہ لی اور بہت سے قیدی اور مال و اسباب مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قیدیوں کی تعداد چھ ہزار لکھی ہے اور اونٹوں اور بکریوں کی تعداد بہت زیادہ بیان کی گئی ہے۔ قیدیان حنین کی ” مناً “ رہائی : کئی دن بعد ہوازن کے لوگ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور چاہا کہ ان کے تمام قیدی منا یعنی احسان رکھ کر بغیر کسی معاوضہ لینے کے چھوڑ دیئے جائیں۔ یہ بات کس قدر مشکل تھی کیونکہ تمام لڑنے والوں کا جیسا حق غنیمت کے مال میں حصہ لینے کا تھا ویسا ہی ان قیدیوں کے معاوضہ میں فدیہ لینے کا حق تھا اور وہ لوگ ایسے نہ تھے کہ فدیہ نہ دے سکتے ہوں۔ آنحضرت ﷺ قیدیوں کو بغیر فدیہ لیے چھوڑ دینے کی خواہش رکھتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کل نماز کے وقت سب لوگ آؤ ۔ غالباً یہ اس لئے فرمایا کہ یہ سب لوگ ایک جگہ جمع ہوں گے اور جب نماز ہوچکے تو تمام قیدیوں کو چھوڑنے کی درخواست کرو۔ ان لوگوں نے اسی طرح پر کیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو چکھ کہ میرا اور بنی عبدالمطلب کا ہے یعنی ان کا حصہ ہے وہ تمہارے لئے ہے۔ مہاجرین اور انصار نے کہا کہ جو ہمارا حصہ ہے وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے لئے ہے۔ بعض لوگوں نے اس طرح پر قیدیوں کے دے دینے سے انکار کیا مگر آخر کو سب لوگ راضی ہوگئے اور تمام قیدی بغیر معاوضہ لئے احساناً چھوڑ دیئے گئے۔ 76۔ سریہ طفیل بن عمرو الدوسی شوال 8 ہجری : ذوا الکفین نام لکڑی کا ایک بت عمرو بن جمۃ کا تھا اس کے توڑنے کو آنحضرت ﷺ نے طفیل ابن عمرو کو روانہ کیا وہ وہاں سے گئے اور اس بت کو توڑ دیا اور جلا دیا۔ 77۔ غزوہ طائف شوال 8 ہجری : حنین سے واپس آنے کے بعد آنحضرت ﷺ نے طائف کی طرف کوچ فرمایا کیونکہ بنی ثقیف نے طائف کے قلعوں میں جا کر پناہ لی تھی اور لڑائی کا سامان کیا تھا۔ ایک مہینہ تک یا کچھ زیادہ طائف کا محاصرہ رہا اور لڑائی بھی ہوتی رہی مگر ابھی فتح نہیں ہوئی تھی کہ ذیقعدہ کا مہینہ کا چاند دکھائی دیا اور آنحضرت ﷺ کو عمدہ ادا کرنا منظور تھا اس لئے محاصرہ اٹھا لیا اور فرمایا کہ ماہ حرم گزر جانے کے بعد پھر لڑا جائے گا اور مکہ کو واپس تشریف لائے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے۔ کئی مہینوں کے بعد طائف کے لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم کو آنحضرت ﷺ سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اطاعت قبول کریں۔ پھر انہوں نے چھ شخصوں کو آنحضرت ﷺ کے پاس مدینہ میں بھیجا اور چار باتوں پر صلح چاہی ایک یہ کہ ” لات “ جو ان کا بت ہے وہ تین برس تک نہ توڑا جائے۔ جب آنحضرت ﷺ نے منطور نہ فرمایا تو انہوں نے چاہا کہ ایک برس تک نہ توڑا جائے جب اس کو بھی منظور نہ فرمایا تو انہوں نے چاہا کہ ایک مہینے تک جب سے کہ یہ لوگ واپس جائیں نہ توڑا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو بھی نامنظور فرمایا۔ دوسرے یہ کہ ان کے لئے نماز معاف کردی جائے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس دین میں نماز نہیں ہے اس میں کچھ بھلائی نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ اپنے بت اپنے ہاتھوں سے نہ توڑیں۔ چوتھے یہ کہ جو عامل محصول وصول کرنے کے لئے مقرر ہو اس کے سامنے وہ نہ بلائے جائیں اور نہ ان کی زمینوں کا عشر لیا جائے اور نہ کوئی جرمانہ۔ ان پچھلی دو شرطوں کو آپ نے منظور فرمایا اور اسی پر صلح ہوگئی۔ 78۔ سریہ ابو سفیان ابن حرب اور مغیرہ بن شعبہ 8 ہجری : اس صلح کے بعد آنحضرت ﷺ نے ابو سفیان اور مغیرہ بن شعبہ کو طائف میں لات بت کے توڑنے کے لئے بھیجا اور مغیرہ بن شعبہ نے اپنے ہاتھ سے اس کو توڑ دیا۔ جب وہ توڑا جاتا تھا ئو بنی ثقیف کی عورتیں اس کے گرد ج ہوگئی تھیں اور لات کی موت پر گریہ و زادی کرتی تھیں۔ 79۔ سریہ عیینۃ بن حصن انفراری محرم 9 ہجری : اس سریہ میں پچاس سوار تھے اور بنی تمیم پر جنہوں نے ابھی تک اطاعت قبول نہیں کی تتھی بھیجا گیا تھا اور وہ لوگ جنگل میں اپنے مویشی کو چرا رہے تھے کہ دفعۃً عیینہ معہ اپنے سواروں کے ان پر جا پڑے وہ لوگ بھاگ گئے اور گیارہ مرد اور اکیس عورتویں اور تیس بچے گرفتار ہوئے ان کو مدینہ میں لے آئے۔ اس کے بعد بنی تمیم کے چند سردار مل کر مدینہ میں آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور اطاعت قبول کی اور آنحضرت ﷺ نے تمام قیدیوں کو منا یعنی بغیر کسی معاوضہ کے ان کو دے دیا۔ 80۔ سریہ قطبہ بن عامر بن حدیدہ صفر 9 ہجری : یہ سریہ قبیلہ خثعم پر بھیجا گیا تھا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس سر یہ کو حکم تھا کہ بنی خثعم کو لوٹ لیں مگر کسی نے نہیں لکھا کہ ایسا حکم دینے کی کیا وجہ تھی۔ وہ قبیلہ کچھ مالدار نہ تھا ، نہ ان کے پاس بہت سے اسباب یا مویشی تھے کہ کوئی بدظنی سے کہہ سکے کہ مال اور لوٹ کے لالچ سے ایسا حکم دیا تھا۔ بہرحال اگر در حقیقت ایسا حکم دیا تھا تو ضرور کوئی جائز سبب ہوگا۔ اس سریہ میں کل بیس آدمی بھیجے گئے تھے اور جو واقعہ ہوا اس کا بیان بھی مختلف ہے۔ زاد المعاد میں لکھا ہے کہ قبیلہ خثعم کے گاؤں کا ایک آدمی ملا اس سے کچھ حال پوچھا وہ چلایا غالباً اس غرض سے کہ گاؤں والوں کو خبر ہوجانئے اس کو لوگوں نے مار ڈالا۔ مگر مواہب لدنیہ میں اس کے قتل ہونے کا کچھ ذکر نہیں۔ پھر زاد المعاد میں لکھا ہے کہ رات کو سوتے میں گاؤں میں حملہ کیا مگر مواہب لدنیہ میں رات کو حملہ ہونا بیان نہیں ہوا۔ بہرحال یہ لوگ اس گاؤں پر جا پڑے۔ گاؤں والے خوب لڑے اور طرفین کے آدمی مارے گئے اور زخمی ہوئے اور کھچ بھیڑ بکریاں جو ہاتھ لگیں اور کچھ عورتیں جو گرفتار ہوئیں تھیں ان کو مدینہ میں لے آئے۔ کسی نے نہیں لکھا کہ ان عورتوں کی نسبت کیا ہوا اور اس کا ذکر نہ ہوگا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ چھوڑ دی گئیں کیونکہ اگر وہ بطور لونڈیوں کے تقسیم کی جاتیں تو اس کا ضرور ذکر ہوتا۔ 81۔ سریہ ضحاک بن سفیان الکلابی ربیع الاول 9 ہجری : یہ سر یہ بنو کلاب پر بھیجا گیا تھا انہوں نے بھی اطاعت نہیں کی تھی۔ وہاں پہنچ کر اول ان کو مسلمان ہوجانے کو سمجھایا گیا انہوں نے نہ مانا اور لڑے اور شکست کھا کر بھاگ گئے۔ 82۔ سریہ عبداللہ ابن حذافہ یا سریہ علقمہ بن المحرز المدلجی ربیع الاول 9 ہجری : اس بات میں اختلاف ہے کہ اس سریہ کے سردار عبداللہ تھے یا علقمہ ؟ سیرت ہشامی میں لکھا ہے کہ علقمہ کے بھائی وقاص بن محرز المدلجی ذو قرد کی لڑائی میں مارے گئے تھے اس لئے علقمہ نے آنحضرت ﷺ سے اجازت چاہی کہ وہ حبشہ کی قوم سے جہوں نے ان کو مارا تھا ان کے خون کا بدلہ لے اور کچھ عجب نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے پہلے عبداللہ کو سردار قرار دیا ہو اور پھر علقمہ کو سردار کردیا یہ سریہ قوم حبشہ کی طرف بھیجا گیا تھا جن کی بغرض فساد کے جمع ہونے کی خبر پہنچی تھی۔ تین سو آدمی اس سرہ میں تھے۔ یہ لوگ دریا کی طرف جمع تھے اور جب علقمہ دریا کے ایک جزیرے میں جا کر اترے تو وہ لوگ بھاگ گئے اور علقمہ معہ اپنے لوگوں کے بغیر کسی جنگ کے واپس آگئے۔ 83۔ سریہ حضرت علی ؓ بن ابی الیٰ طالب بنی طے 9 ہجری : قبیلہ بنی طے کا سردار عدی بن حاتم تھا اور اس قبیلہ میں بطور بادشاہ کے سمجھا جاتا تھا اور سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ کو ناپسند کرتا تھا اور کسی قوم کی اطاعت بھی نہیں کی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو متعین کیا کہ اس قبیلہ میں جائیں اور ان کے پوجنے کا بت جس کا نام فلس تھا توڑ دیں۔ یہ بت حاتم کے محلہ میں تھا۔ یہ لوگ دفعۃً وہاں پہنچے۔ عدی ابن حاتم بھاگ گیا اور ان لوگوں نے اس محلہ کو گھیر لیا اور لوٹ لیا اور بت کو توڑ ڈالا اور کچھ قیدی پکڑ لئے اور مدینہ میں واپس چلے آئے۔ انہیں قیدیوں میں حاتم کی بیٹی بھی تھی۔ جب آنحضرت ﷺ اس طرف گزرے تو حامت کی بیٹی نے اپنا حال عرض کیا۔ آپ ﷺ نے کہا کہ عدی تیرا بھائی ہے جو بھاگ گیا ہے اور کچھ جواب نہیں دیا۔ دوسرے دن پھر اس نے کہا اور آنحضرت ﷺ نے جواب دیا کہ میں بات کا منتظر ہوں کہ کوئی شخص تیری قوم کا ملے تو میں اس کو تیرے ساتھ کر کے آرام سے تریے گھر تجھ کو بھیج دوں۔ عدی اس کا بھائی عیسائی تھا اور شام کی طرف بھاگ گیا تھا۔ انہیں دنوں میں ایک قافلہ شام کو جاتا تھا۔ حاتم کی بیٹی نے درخواست کی کہ اس کو اس قافلہ کے ساتھ شام میں اس کے بھائی کے پاس بھیج دیا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے منظور کیا اور اس کو زاد راہ اور کپڑے عطا کئے اور روانہ کردیا ، وہ اپنے بھائی کے پاس پہنچ گئی۔ اس کے چند روز بعد عدی ابن حاتم آنحضرت ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور مسلمان ہوگیا اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ قبیلہ طے کے جس قدر قیدی تھے وہ سب چھوڑ دیئے گئے۔ 84۔ غزوہء تبوک رجب 9 ہجری : تبوک۔ ایک قصبہ ہے شام کی وادی القریٰ کے درمیان۔ نبی کریم ﷺ کو یہ خبر ملی تھی کہ اہل روم نے شام میں بہت کثرت سے لوگ جمع کئے ہیں اور ہرقل نے ایک برس کے خرچ کے برابر رسد ان کو دے دی ہے اور بنی لخم اور بنی جذام اور بنی عاملہ اور بنی غسان سب ان کے ساتھ شریک ہوگئے ہیں۔ اہل روم سے مراد ہرقل کے لشکر سے ہے اور جو قسطنطنیہ کا بادشاہ تھا اور شام اس کے تحت حکومت میں تھا اور اس زمانہ کے قریب اس نے ایران کو بھی فتح کرلیا تھا۔ اس خبر پر نبی کریم ﷺ نے بھی لوگوں کو جمع ہونے اور لڑائی کا سامان مہیا کرنے کا حکم دیا اور مدینہ سے مع لشکر کے روانہ ہوئے مگر جب آپ مع لشکر تبوک پہنچے تو جس قدر مجمع کی خبر سنی تھی اس قدر کا مجمع ہونا صحیح نہیں تھا۔ بہرحال آپ نے تبوک میں قیام فرمایا اور وہاں کے قبائل کے بڑے بڑے سردار آپ ﷺ کو جزیہ دینے پر رضامند ہوگئے اس لئے آپ ﷺ نے مختلف فرمان جاری کئے اور وہاں کا سارا انتظام مکمل کر کے مدینہ کو واپس لوٹ آئے۔ ان سارے معاہدات کا ذکر مغازی کی کتب میں موجود ہے۔ تبوک ہی کے مقام سے نبی اعظم و آخر ﷺ نے ہرقل شہنشاہ روم کے نام بھی خط لکھا اور اپنے ایلچی بھیجا کس کی شاہ روم نے بہت پذیرائی کی اس کے متعلق جو کچھ مسٹر گبن نے لکھا وہ قابل دید ہے اس نے تو یہاں تک لکھا کہ وہ دراصل مسلمان ہوگیا تھا حالانکہ یہ محض اس کا اچھا پشو آنے سے مورخین نے جو اسلام کے خلاف تھے ایسی تحریریں لکھیں۔ لیکن اس وقت ہم تفصیل میں گئے بغیر یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ان واقعات میں جو اوپر بیان ہوئے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو لڑائیاں نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ہوئیں وہ محض چار قسم کی تھیں۔ 1 : دشمنوں کے حملہ کو روکنے کے لئے ، 2 : لڑائی کے لئے لوگوں کے جمع ہونے کی خبر پا کر اس فساد کے مٹانے اور ان لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ، 3 : ان لوگو پر حملہ کیا گیا جنہوں نے عہد شکنی یا دغا بازی یا بغاوت کی ، 4 : خبر رسانی اور قوموں کے حالات دریافت کرنے کے لئے جو لوگ بھیجے جاتے ان سے کہیں لڑائی ہوگئی۔ پس یہ تمام لڑائیاں ایسی تھیں جو معمولاً ملکی انتظام میں اور امن وامان قائم کرنے میں واقع ہوئی ہیں اور دنیا میں کوئی قوم بھی ایسی نہیں ہے کہ جس نے ملکی انتظام ہاتھ میں لیا ہو اور اس کو اس قسم کی لڑائیاں پیش نہ آئی ہوں۔ ان لڑائیوں کی نسبت یہ کہنا کہ زبردستی سے ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنے کے لئے تھیں ایک ایسا غلط مفروضہ ہے جس کو کوئی ذی عقل بجز اس کے کہ دل میں تعصب بھرا ہوا ہو سچ تسلیم نہیں کرسکتا۔ ہم نے جو غزوات و سرایا کی فہرست پیش کی ہے محض یہ دکھانے کو ہے کہ اسلام کے ذمہ جو بےلگام لوگوں نے گفتگو کی ہے اس کی حقیقت کو سمجھا جائے۔ تفصیل کے لئے مغازی کی کتب کی طرف رجوع کریں۔
Top