Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 2
فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْكٰفِرِیْنَ
فَسِيْحُوْا : پس چل پھر لو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَرْبَعَةَ : چار اَشْهُرٍ : مہینے وَّاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم غَيْرُ : نہیں مُعْجِزِي اللّٰهِ : اللہ کو عاجز کرنے والے وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ مُخْزِي : رسوا کرنے والا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
وہ چلیں پھریں چار مہینے تک ان پر کوئی روک ٹوک نہیں اور (اس کے بعد جنگ کی حالت قائم ہوجائے گی) یاد رکھو تم کبھی اللہ کو عاجز نہ کرسکو گے اور اللہ منکروں کو ذلیل کرنے والا ہے
مذکورہ معاہدہ سے کون سا معاہدہ مراد ہے اور وہ کن مشرکین سے ہوا ؟ 1: اس معاہدہ سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھی جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے آئے تو قریش نے ان کو یہاں امن سے نہ بیٹھنے دیا بلکہ ان کو تنگ کرنے کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جس کے نتیجہ میں جہاد فرض کردیا گیا اور غزوہ بدر باقاعدہ طور پر پہلی جنگ ہوئی اور پھر اس کا سلسلہ آگے بڑھتا ہی گیا اور ہر سال میں دو تین بار یہ صورت حال پیش آجاتی کہ دونوں گروہوں کا تصادم ہوجاتا۔ لیکن عربوں میں اس یورش سے پہلے بھی خانہ جنگی ہوئی رہتی تھی اگرچہ اسے کا رخ اب بدل کر ایک نئی صورت اختیار کر گیا۔ اس خانہ جنگی اور ایک دوسرے کے قافلوں کو لوٹنے کے باوجود چار مہینے حرمت کے سمجھے جاتے تھے اور ان کی حرمت کا اعلان اسلام نے بھی کیا تھا۔ گویا اس وقت کے دونوں گروہوں کو بھی ان چار مہینوں کی حرمت پر اتفاق تھا۔ کعبہ اسلام کا مرکز تھا کیونکہ اسلام کی بنیاد جو ابراہیم (علیہ السلام) نے رکھی تھی اور وہی بنیاد نبی اعظم و آخر ﷺ کی قرار پائی تھی جس کا اعلان سورة الحج میں اس طرح کیا گیا کہ : ملۃ ابیکم ابراہیم تمہاری ملت وہی ہے جو تمہارے سے ایک مہینہ کا نام ہے بغرض عمرہ و حج بیت اللہ کا قصد کیا اور جس طرح سارے عرب کے لوگ اس موقع پر حج کی غرض سے جاتتے تھے اور جس رواج کے مطابق جاتے ت تھے اسی طرح نبی اعظم و آخر ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کا ایک گروہ بھی تیار ہو کر مدینہ سے نکلا۔ رواج کے مطابق کہنے سے ہماری مراد یہ ہے کہ ان حج کے مہینوں میں بغرض حج اور عمرہ جو لوگ چلتے وہ اپنے جانوروں کے گلے میں بطور علامت یا عمرہ کوئی لوہے کی چیز لٹکا لیتے جو عرف عام میں قلادہ کہلاتی تھی اور یہ علامت سمجھی جاتی تھی کہ یہ لوگ حج بیت اللہ کے لئے جا رہے ہیں ان سے کوئی گروہ مزاحمت نہیں کرے گا اور ان کو بخیریت گزرنے دے گا۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ کے قریب ہی ایک مقام ” ذوالحلیفہ “ پر پہنچ کر جو مدینہ والوں کی میقات ہے عربوں کے رواج کے مطابق اپنے جانوروں کے گلے میں وہ قلادہ پہنچایا تاکہ سب دیکھنے والوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ قافلہ حج وعمرہ کے لیے جا رہا ہے۔ یہ قافلہ بخیریت منزل پے کرتا ہوا احرام باندھے اور اپنے جانوروں کی گردنوں میں قلادہ پہنے ہوئے میدان حدیبیہ تک پہنچ گیا جو مکہ سے صرف ایک منزل دور تھا اس جگہ پہنچ کر ابھی قیام کیا تھا کہ مکہ والوں نے اس قافلہ کو اس جگہ رک جانے کی ہدایت کی اور آگے بڑھنے سے روک دیا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے ایلچیوں کے ذریعہ سے مکہ والوں کو مطلع کا کہ ہمارا ارادہ حج وعمرہ کا ہے اور یہ مہینے حرمت کے ہیں ہمارا ارادہ لڑائی کا مطلق نہیں اور ہم خاموشی سے حج وعمرہ ادا کر کے واپس چلے جائیں گے۔ ہمارے ساتھ قربانی کے جانور بھی موجود ہیں اس لئے آپ لوگوں کو مزاحمت نہیں کرنی چاہئے اور یہ کہ سارے عرب کو بیت اللہ جانے اور حج وعمرہ ادا کرنے کی اجازت عام ہے اور اس پر بپابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ یہ سارا کچھ کہنے کے باوجود مکہ والے نبی کریم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو واپس چلے جانے کا پیغام بھجواتے رہے اور اس سلسلہ میں فریقین کے درمیان یہ طے پایا کہ اس سالا تو بہرحال مسلمانوں کے اس قافلہ کو حج وعمرہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی البتہ آئندہ سال ان لوگوں کو اجازت ہوگی۔ ازیں بعد اس میدان میں ایک باقاعدہ معاہدہ ہوا اور اس معاہدہ میں جو شقین طے پائیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس سال مسلمان واپس چلے جائیں اور آنے والے سال ان کو حج و عمدہ کی اجازت ہوگی اور دوسری شق اس معاہدہ کی یہ تھی کہ دس سال تک دو نوں فریقوں میں جنگ نہیں ہوگی اور تیسری شق یہ تھی کہ عربوں کو عام اجازت ہوگی کہ وہ فریقین میں سے جس کے چاہیں حلیف بن جائیں ان پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ اس جگہ ہم ان تین شقوں کا بہ ضرورت ذکر کر رہے ہیں ورنہ معاہدہ کی تفصیل اس سے بہت زیادہ تھی اور معاہدہ طے پانے تک جو مراحل گزرے تھے ان کی تفصیل بھی قدرے زیادہ ہے لیکن اس کا ذکر اس جگہ کوئی ضروری نہیں۔ یہ معاہدہ طے ہونے کے بعد مسلمان حدیبیہ ہی میں قربانیاں کرنے کے بعد واپس مدینہ لوٹ آئے اور اس میدان میں حدیبیہ ہی میں عرب کے دو قبیلوں نے جو آپس میں زبردست رقیب تھے یعنی بنو بکر اور بنو خزاعہ ان میں 7 ھجری میں مسلمانوں نے بحمدللہ حج تو ادا کیا اگرچہ خود نبی کریم ﷺ اس حج میں تشریف نہ لائے لیکن اس کے بعد بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کردیا جس حملہ میں قریش مکہ نے بھی چھپ چھپا کر بنو بکر کی کافی مدد کی۔ بنو خزاعہ کو بہت نقصان پہنچا انہوں نے حرم کعبہ میں داخل ہو کر جان بچانا چاہی لیکن وہاں داخل ہونے والوں کو بھی تتہ تیغ کردیا گیا۔ اس پر اس قبیلہ کے بقای لوگوں نے مسلمانوں سے مدد چاہی۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش مکہ کو لکھا کہ اگر آپ اس خانہ جنگی میں فریق نہیں تو خزاعہ کو بنو بکر سے جو تمہارے حلیف ہیں ان لوگوں کا خون بہا ادا کرا دو تاکہ معاہدہ امن کا نقصان نہ ہو۔ روسائے قریش نہ بجائے اس کے کہ اس ] پر کچھ عمل درآمد کرائے جس سے مزید وقت گزرتا آپ کی اس بات کا کوئی مثبت جواب نہ دیا بلکہ مذاق اڑایا۔ اس طرح قریش نے جو معاہدہ حدیبیہ میں کیا تھا اس کی خلاف ورزی کر کے بدعہدی کا ثبوت دیا بات آگے بڑھتی رہی جس کی تفصیلات بہت لمبی ہیں تاآنکہ 8 ہجرت میں نبی لریم ﷺ نے دس ہزار کی ایک فوج تیار کی اور 20ؕ رمضان المبارک 8 ہجری کو مکہ کی طرف پیش قدمی کی اور راستہ سے بھی عربوں کے مختلف قبائل اس میں شرکت کرتے رہے اور لشکر اسلام چلتے چلتے ” مر الظہران “ جو مکہ سے ایک منزل سے بھی زیادہ قریب ہے وہاں تک چلا گیا اور وہاں جا کر پڑاؤ ڈال دیا۔ فوجیں دور دور تک پھیل گئیں رؤسائے مکہ نے اپنی طرف سے کوشش کی کہ کوئی معاہدہ دوبارہ طے پا جائے لیکن وہ اس معاملہ میں کامیاب نہ ہوسکے۔ نبی کریم ﷺ نے مکہ پہنچنے کا فیصلہ فرمایا اور ساتھ ہی یہ اعلان کرا دیا کہ اگر مکہ والوں کے مزاحمت نہ کی تو یہ لشکر مکہ میں داخل ہو کر بیت اللہ کی زیارت کرنے اور اس کو بتوں سے پاک کرنے کے بعد واپس چلا جائے گا۔ اس اعلان کے مطابق عمل درآمد ہوگیا۔ آپ فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے اور وہاں سب سے پہلے کام یہی کیا کہ بیت اللہ کو بتوں کی ناپاکی سے پاک کیا اور ایک دو معمولی واقعات کے سوا کوئی بات امن کے خلاف نہ ہوئی۔ مکہ فتح ہونے کا اعلان کردیا گیا اور مسلمان چند یوم وہاں گزار کر واپس آنا چاہتے تھے کی عربوں کے دوسرے قبائل نے اسلام کی اس طاقت کو کچلنے کی ٹھان لی۔ آپ ﷺ کو مکہ ہی میں یہ بات معلوم ہوگئی اور اس جگہ آپ ﷺ نے اپنے لشکر کو دو بار تیار ہوجانے کا حکم دیا جس کے نتیجہ میں دس ہزار کا یہ لشکر اور تقریباً دو ہزار لوگ مکہ سے اس لشکر میں شامل ہوگئے اور یہ کل 12 ہزار کا لشکر تیار ہو کر ان قبائل کے لاکھوں کی تعداد کے لشکر کے مقابلہ میں نکل کھڑا ہوا۔ حنین میں معرکہ کا رزار گرم ہوا جنگ نے کئی حالات بدلے لیکن انجام کار اللہ نے لشکر اسلام کو کامیاب کیا اور اس طرح مشرک عربوں کی طاقت موحد عربوں میں تبدیل ہوگئی۔ رجب 9 ہجری میں تیس ہزار مجاہدین کا لشکر تبوک کی طرف بڑھا اور قیصر روم آپ ﷺ کے مقابلہ میں نہ آیا۔ بیس روز تبوک میں ٹھہرنے کے بعد یہ لشکر واپس چلا آیا اور اس طرح پورے عرب اور عربوں کے ہمسایہ ملکوں میں موحدین اسلام کا عرب مکمل طور پر چھا گیا۔ 9 ہجری کے حج کے لئے جو حجاج کرام مدینہ کی طرف سے حج کے لئے گئے ان کا امیر الحاج سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو مقرر کیا گیا۔ یہ قافلہ حج چلے جانے کے بعد سورة التوبہ کا نزول ہوا اور اس معاہدہ سے بیزاری کا اس میں اعلان عام کیا گیا اور یہی وہ معاہدہ ہے جس کا ذکر اس جگہ کیا گیا ہے۔
Top