Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 52
قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ١ؕ وَ نَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ اَنْ یُّصِیْبَكُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِهٖۤ اَوْ بِاَیْدِیْنَا١ۖ٘ فَتَرَبَّصُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ
قُلْ هَلْ : آپ کہ دیں کیا تَرَبَّصُوْنَ : تم انتظار کرتے ہو بِنَآ : ہم پر اِلَّآ : مگر اِحْدَى : ایک کا الْحُسْنَيَيْنِ : دو خوبیوں وَنَحْنُ : اور ہم نَتَرَبَّصُ : انتظار کرتے ہیں بِكُمْ : تمہارے لیے اَنْ : کہ يُّصِيْبَكُمُ : تمہیں پہنچے اللّٰهُ : اللہ بِعَذَابٍ : کوئی عذاب مِّنْ : سے عِنْدِهٖٓ : اس کے پاس اَوْ : یا بِاَيْدِيْنَا : ہمارے ہاتھوں سے فَتَرَبَّصُوْٓا : سو تم انتظار کرو اِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مُّتَرَبِّصُوْنَ : انتظار کرنیوالے (منتظر)
تم کہو کہ تم ہمارے لیے جس بات کا انتظار کرتے ہو وہ ہمارے لیے اس کے سوا کیا ہے کہ دو خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے اور ہم تمہارے لیے جس بات کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ اپنے یہاں سے کوئی عذاب بھیج دے یا ہمارے ہی ہاتھوں عذاب دلائے تو اب انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والے ہیں
معلوم ہوا کہ تم ہماری دو خوبیوں میں سے ایک کے منتظر ہو تو بخوشی رہو : 74: ٹھیک مطلب اس آیت کا یہ ہوا کہ اے منافقو ! تم ہمارے لئے جس بات کے انتظار میں ہو وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم جنگ میں مارے جائیں اور ہم کو شکست ہو۔ لیکن ہمارے لئے تو یہ بھی اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ 1ؕ ہے یعنی دو خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے اور یہی وہ مقام ہے جسے قرآن کریما یامن اور ایمان والوں کی خصوصیت قراد دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جو کفر کی راہ چلے تو انہیں اس کی سمجھ نہیں۔ دنیا میں جب کبھی کوئی فرد یا جماعت کسی مقصد کے لئے جدوجہد کرتی ہے تو اس کے سامنے امید بھی ہوتی ہے مایوسی بھی ، کامیابی بھی ہوتی ہے ناکامی بھی۔ لیکن قرآن کریم کہتا ہے مومن وہ ہے جس کی جدوجہد میں جو کچھ ہے امید و کامرانی ہی ہے مایوسی و ناکامی کی اس پر پرچھائیں بھی نہیں پڑسکتیں۔ کیونکہ وہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کے لئے کرتا ہے اور اس کے لئے یہی بات کامیابی نہیں ہوتی کہ کسی خاص منزل تک پہنچ جائے بلکہ اس کی راہ میں چلتے رہنا اور جدوجہد میں لگے رہنا بجائے خود بڑی سے بڑی کامیابی ہے۔ وہ جب اپنا سفر شروع کرتا ہے تو اس لئے نہیں کرتا کہ کسی خاص منزل تک ضرور ہی پہنچ جائے بلکہ صرف اس لئے کرتا ہے کہ کسی کی راہ میں لچتا رہے اور یہ جو کسی کی راہ میں چلتے رہنا ہے تو یہی اس کی اصل منزل مقصود ہے۔ رہواں راخستگی راہ نیست٭ عشق ہم راہ ست وہم خود منزل است دوسرے اگر جدوجہد کرتے ہوئے مرجائیں تو یہ ان کی کامیابی ہے مومن اگر مرجائے تو اس کی بڑی سے بڑی فتح مندی ہے ایسی فتح مندی جس سے بڑی فتح مندی کی وہ اپنے ذات کے لئے آرزو ہی نہیں کرسکتا۔ آنانکہ غم تو برگزیدہ ند ہمہ٭ در کوئے شہادت آدمیدند ہمہ در معرکہ دو کون فتح از عشق است ٭ باآن کہ سیاہ اد شہید ند ہمہ دوسرے اگر لڑیں اور دشمنوں پر غالب نہ آسکیں تو ان کی ہار ہوئی لیکن مومن وہ ہے جو ہار کے معنی ہی سے نا آشنا ہوتا ہے وہ اگر کسی میدان میں غالب نہ آئے جب بھی جیت اسی کی ہے کیونکہ اس کی بار جیت کا معیار میدان جنگ نہیں ہوتا خود اس کی طلب و سعی ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی سعی و طلب میں پورا نکلا تو اس نے میدان مار لیا اگرچہ میدان جنگ میں اس کی لاش ہزاروں لاشوں کے نیچے دبی ہوئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس راہ میں وہ کبھی مر نہیں سکتا اس کی موت بھی اس کی زندگی ہی ہوتی ہے بلکہ پہلی زندگی سے ہزار بار اچھی اور بہتر زندگی وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ۔ یہ جو قرآن کریم نے جا بجا زور دیا ہے کہ مومن کا مقصد سعی صرف اللہ اور اس کے رسول کی سچائی ہے اور مومن کی جہد کا نام ” جہد فی سبیل اللہ “ رکھ دیا تو اس میں یہی حقیقت پوشیدہ ہے یعنی وہ ساری منزلوں سے جو دنیا میں پیش آسکتی ہیں بلند کردیا گیا۔ اب یہاں کی کوئی منزل اس کی منزل مقصود نہیں ہوسکتی کہ اس تک نہ پہنچ سکنا اس کی ناکامی کا فیصلہ کردے اس کے لئے منزل مقصود تو صرف یہ ہے کہ حق کی راہ میں چلتا رہے اور رکے نہیں۔ اس کا ہر قدم جو چلتا رہا فتح مندی ہے اور ہر قدم جو رک گیا نامرادی۔ مختصر یہ کہ ” دو خوبیوں “ سے مقصود یہی حقیقت ہے یعنی فتح مندی یا شہادت اور شہادت بھی فتح مندی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ ” شہادت یا مالی غنیمت “ جیسا کہ بعضوں نے خیال کیا اور حاشاء کہ مال غنیمت کسی مومن کے لئے اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ 1ؕ ہو۔
Top