Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 73
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی جَاهِدِ : جہاد کریں الْكُفَّارَ : کافر (جمع) وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافقین وَاغْلُظْ : اور سختی کریں عَلَيْهِمْ : ان پر وَمَاْوٰىهُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور بری الْمَصِيْرُ : پلٹنے کی جگہ
اے پیغمبر اسلام ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ (کیونکہ کافروں کی عہد شکنیاں اور منافقوں کا عذر آخری حد تک پہنچ چکا ہے) بالآخر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے کیا ہی بری پہنچنے کی جگہ ہے
کافروں اور منافقوں سے جہاد کرنے کی دوبارہ تاکید : 97: یہ آیت اور اس طرح کی دوسری آیات ہم کو بتاتی ہیں کہ جہاد صرف اور صرف جنگ لڑنے ہی کا نا نہیں ہے بلکہجَاہِدِ جہد سے ہے جس کے معنی زور لگانا اور کوشش کرنے کے ہیں اور جہاد معنی جنگ کو بھی اس لئے جہاد کہا جاتا ہے کہ دشمن کی طاقت کو کچلنے کے لئے زور لگایا جاتا ہے۔ امام راغب (رح) کہتے ہیں کہ جہاد تین طرح پر ہے۔ دشمن ظاہری سے جہاد ، شیطان سے جہاد اور اپنے نفس سے جہاد اور جَاہِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ 1ؕ اور جَاہِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ وغیرہ تینوں قسم کا جہاد شامل ہے اور نبی کریم ﷺ کا بھی ارشاد گرامی ہے کہ : جَاہِدُوْا اھواء کم کما تجاھدون اعداء کم ۔ یعنی اپنی خواہشات نفس سے اس طرح جہاد کرو جس طرح اپنے دشمنوں سے جہاد کرتے ہو اور نبی کریم ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ : جَاہِدُوْا الکفار بایدیکم والسنتکم ۔ یعنی کافروں کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے بھی جہاد کرو اور زبانوں سے بھی جہاد کرو اس طرح جہاد کی بہت سی اقسام مراد لی جاسکتی ہیں جیسے جہاد لسانی اور جہاد قلبی وغیرہ۔ اور اس طرح فرمایا وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ 1ؕ کہ ان پر سختی کرو چونکہ غلظ ، رقت کی ضد ہے اس لئے غلظ کا استعمال قوت اور طاقت پر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : ” مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا “ مضبوط عہد اور اسی طرح فَاسْتَغْلَظَ کے معنی مضبوط ہونا اور موٹا ہونے کے ہیں۔ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ 1ؕ کے معنی ہوئے ” ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ “ اس لئے کہ اب وہ نرمی کے مستحق نہیں رہے۔ یہ سب کچھ اس لئے بیان کیا گیا کہ ہمارے مفسرین عربی کے کسی لفظ کا ایک معنی جب ایک قرار دیتے ہیں تو دوسری جگہ اگرچہ اس کے وہ معنی مراد نہ ہوں اس کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیر نظر آیت میں جو ارشاد فرمایا کہ کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو تو ظاہر ہے کہ پیچھے مشرکوں اور کافروں کے جہاد کا ذکر تو چلا ہی آرہا تھا اور اس جہاد سے مراد بھی بالاتفاق جہاد بالسیف ہی تھا لیکن باقی قسم کے جہاد بھی یقیناً اس میں شامل تھے لیکن اس جگہ کافروں کے ساتھ منافقوں کو بھی شامل کرلیا اور منافق کی تعریف میں دیکھ چکے ہیں کہ وہ وہی تھے اور ہیں جو زبان سے تو ایمان و اسلام کا اقرار کرتے تھے لیکن عملاً مخالفت پر ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے تاہم کسی زمانہ نبوی ﷺ میں بھی ان کے ساتھ جہاد بالسیف نہیں کیا گیا بلکہ بعض اوقات انہوں نے وہ کام کئے جن کی بناء پر صحابہ ؓ نے عرض بھی کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اس مانفق کی گردن زنی کردینی چاہئے لیکن آپ ﷺ نے منی فرمایا اور کبھی کسی منافق کو صرف نفاق کے باعث قتل نہیں کیا گیا۔ جس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ پیغمبر اسلام اور دوسرے مسلمانوں کو زیر نظر آیت میں حکم یہ دیا گیا ہے کہ منافقوں کے ساتھ ایک مدت تک آپ نے نرمی اختیار کی اور ان کی شرارتوں سے چشم پوشی کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے ساتھ نہ نکلنے بلکہ ساتھ نکل کر واپس چلے آنے پر بھی کبھی سخت گیری نہ کی گئی بلکہ آج تک ان کے عذتوں کو قبول کیا گیا لیکن اب وہ وقت آگیا کہ منافقوں اور مومنوں کو بالکل الگ الگ کردیا جائے اور ان کا مسلمانوں کے ساتھ ملے رہنے سے جو مسلمانوں میں شامل نہ کیا جائے۔ مطلب بالکل واضح ہے کہ اپنی مجلسوں سے ان کو الگ کردیا جائے اور اپنے قومی رازوں سے ان کو آگاہ نہ ہونے دیا جائے اس لئے کہ ان کو یہ محسوس ہو کہ ہمارے اندر کیا کمزوری ہے اور اس کمزوری کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے اس کا یہی طریقہ ہے کہ عام مسلمان جو صحیح معنوں میں مسلمان ہیں ان کے ساتھ اور نام کے مسلمانوں کے ساتھ ایک جیسا رویہ اختیار نہ کیا جائے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نہایت رقیق القلب اور خلیق عظیم کے مالک تھے۔ آپ ﷺ خلقتاً نعم مزاج تھے بلکہ خود قرآن نے آپ ﷺ کے اس وصف مزاجی کی تعریف کی ہے جس کی تشریح ہم عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 158 میں کرچکے ہیں۔ سخت مزاجی اور سخت کلامی آپ ﷺ میں نہیں تھی اس لئے ہم نے ” سختی سے پیش آؤ “ سے ترجمہ کیا ہے اور اس کا مطلب فقط یہ ہوگا کہ ان سے نرمی اختیار نہ کرو جو آج تک تم کرتے آئے ہو کیونکہ یہ لوگ نرمی سے درست ہونے والے نہیں اگر ایسے ہوئے تو کبھی کے درست ہوگئے ہوتے۔ اب ان سے وہ چشم پوشیاں اور عفو و درگزر نہ کیا جائے جو آج تک آپ کرتے رہے اس لئے کہ یہ اسلام کے دشمن ہیں اسی لئے انہوں نے آج تک اپنے رویہ میں ذرا بھی لچک نہیں ڈالی۔ ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں برباد ہے : 98: ان کا آخری ٹھکانا تو یقیناً جہنم ہے اگر انہوں نے توبہ نہ کی اور باز نہ آئے۔ اس طرح ان کی آخرت کی رسوائی تو یقیناً ہوگئی۔ رہی بات کہ ان کی دنیا میں رسوائی ہوئی یا نہیں ؟ غور کرو کہ جس طریقہ سے قرآن کریم نے ان کا تذکرہ کیا اور کرتا جا رہا ہے اور اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب بھی کسی کو اس میں شک ہو سکتا ہے کہ ان کی دنیا میں رسوائی ہوئی یا نہیں۔ رسوائی اور کیا ہوتی ہے ؟ خود نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں ان کے سردار کا نماز جنازہ خود رسول اللہ ﷺ نے پڑھایا لیکن اس کے باوجود وحی الٰہی نے دو ٹوک حکم سنا دیا کہ اے پیغمبر اسلام ! آپ ایک دفعہ نہیں اگر ستر بار بھی اس کے لئے بخشش طلب کریں تو اس کو بخشا نہیں جائے گا۔ ان کی تعمیر کردہ مسجد کو ان کی آنکھوں کے سامنے منہدم کردیا گیا۔ ان ساری باتوں کے باوجود اگر یہ کہا جائے کہ ان کی دنیا میں رسوائی ہوئی یا نہیں تو یہ کہنے والے کی مرضی لیکن اس میں شک کی کوئی گنجائش تو باقی نہیں رہ جاتی یقیناً وہ دنیا میں بھی رسوا ہوئے اور اب تک ہو رہے ہیں اور تا قیامت ہوتے رہیں گے اور آخرت بھی ان کی برباد ہوئی اور جہنم کے انگاروں کے سوا ان کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔
Top