Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 90
وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَجَآءَ : اور آئے الْمُعَذِّرُوْنَ : بہانہ بنانے والے مِنَ : سے الْاَعْرَابِ : دیہاتی (جمع) لِيُؤْذَنَ : کہ رخصت دی جائے لَهُمْ : ان کو وَقَعَدَ : بیٹھ رہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَبُوا : جھوٹ بولا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول سَيُصِيْبُ : عنقریب پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا مِنْهُمْ : ان سے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور اعرابیوں میں سے عذر کرنے والے تمہارے پاس آئے کہ انہیں بھی اجازت دی جائے اور جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا وہ گھروں ہی میں بیٹھے رہے سو معلوم ہو کہ ان میں سے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی انہیں عنقریب عذاب دردناک پیش آئے گا
شہر تو شہر دیہاتوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو عذر پیش کرتے ہیں : 120: ” الْاَعْرَابِ “ اعرابی کی جمع ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو شہروں کی بجائے دیہاتوں یا جھونپڑیوں میں رہنے والے ہیں یعنی صحرائی علاقوں کے بادیہ نشین جو شہروں کے مقامات میں آباد تھے۔ معذرین وہ لوگ ہیں جو عذر تو نہ رکھتے ہوں لیکن اس کے باوجود عذر پیش کریں (اذہری لغوی ، لسان العرب) معتذر اور معذر میں فرق یہ ہے کہ معتذر وہ ہے کہ جس کو ممکن ہے کہ عذر ہو اور اس طرح یہ بھی کہ کوئی عذر نہ ہو یعنی جس پر عذر کا شک ہو کہ شاید عذر اس کو ہے یا نہیں ہے لیکن معذر کے لئے یقین ہے کہ اس کو فی الواقعہ کوئی عذر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ عذر پیش کرتا ہے۔ (تاج) یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت دیکھ کر لوگوں کی دیکھا دیکھی اسلام قبول کرلیا لیکن ابھی تک ان کے اندر اسلام رچا بسا نہیں تھا اور دوسرے یہ کہ مرکز سے دوری کے باعث ان کی تعلیم و تربیت کا بھی صحیح بندوبست نہ تھا اس لئے ” الْاَعْرَابِ “ کا ترجمہ گنوار لوگ بھی کیا جاتا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ” الْاَعْرَابِ “ نسل اسماعیل (علیہ السلام) کو کہا جاتا تھا لیکن بعد میں اس لفظ سے مراد صر دیہاتیوں پر ہونے لگا۔ اس طرح وہ دیہاتی لوگ جو نبی کریم ﷺ کے پاس کوئی عذر نہ ہونے کے باوجود عذر لے کر آئے انہیں بھی آپ ﷺ نے اجازت دے دی اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا یہ سمجھتے ہوئے اجازت دے دی کہ یہ لوگ جو اپنی بات کے سچے نہیں اگر یہ جماعت میں شامل ہوگئے تو راستے میں بھی اور میدان جنگ میں پہنچ کر بھی یہ کسی نہ کسی تکلیف کا باعث ہو سکتے ہیں اس لئے ان کا نہ جانا جانے سے بہر حال بہتر ہے اور خصوصاً جب وہ خود جانے کو تیار نہیں تو ہم ان کو لے جا کر کیا کریں گے۔ گویا ان لوگوں نے دوسروں کی دیکھا دیکھی منافقت اختیار کرلی : 121: فرمایا : ” ان میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی انہی عنقریب عذاب دردناک پیش آئے گا۔ “ کہ دنیا میں وہ سارے مسلمانوں کی نظروں سے گرجائیں گے اور آخرت میں دوزخ سے دوچار ہوں گے اور وہی ان کی کھاری جلا کر رکھ دے گی اور اس سے وہی لوگ نجات حاصل کرسکیں گے جو اس دنیوی زندگی میں اپنا آپ سنبھل گئے اور توبہ کر کے یہاں سے رخصت ہوئے اور جو اس حالت کفر میں مرے ان کے لئے یقیناً دردناک عذاب ہوگا جس سے مخصلی ممکن ہی نہیں۔
Top