Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 97
اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّ نِفَاقًا وَّ اَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اَلْاَعْرَابُ : دیہاتی اَشَدُّ : بہت سخت كُفْرًا : کفر میں وَّنِفَاقًا : اور نفاق میں وَّاَجْدَرُ : اور زیادہ لائق اَلَّا يَعْلَمُوْا : کہ وہ نہ جانیں حُدُوْدَ : احکام مَآ : جو اَنْزَلَ : نازل کیے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر رَسُوْلِهٖ : اپنا رسول وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اعرابی کفر [ و نفاق میں سب سے زیادہ سخت ہیں اور اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کی نسبت سمجھا جائے دین کے ان حکموں کی انہیں خبر نہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیے ہیں اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے
اعرابی کفر و نفاق میں کچھ زیادہ ہی سخت ہوتے ہیں : 128: ” الْاَعْرَابِ “ اپنے کفر و نفاق میں کچھ زیادہ سخت ہوتے ہیں ، آخر کیوں ؟ اس لئے کہ وہ سخت مزاج بھی ہوتے ہیں اور تند خومزاج بھی ۔ اس آیت میں خاص دیہاتی عربوں کا ذکر کا گیا اور ان میں سے جو منافق تھے وہ اپنی منافقت میں مدینہ کے شہری منافقوں سے بہت آگے بڑھے ہوئے تھے۔ آج ہماری زبان میں ان لوگوں کو اعرابی ہی کہا جاتا ہے وہ دھینگا مشتی کرسکتے ہیں ، عقل و فکر نام کی کوئی چیز ان کے پاس موجود ہی نہیں اور دھینگا مشتی کی ایک اپنی زبان ہے اور دھینگا مشتی وہی سمجھ سکتا ہے۔ عقل و فکر کی بات اس کے لئے نہایت دشوار ہوتی ہے۔ ود اور دو کو چار کہنے والا اس کو کبھی پسند نہیں آیا وہ ہمیشہ دو اور دو کو تین یا پانچ کہنے والے کے ساتھی ہوتے ہیں اور یہ بات ان کی سمجھ میں بہت جلد آجاتی ہے۔ دیوار بنانے کا ان کو قطعاً علم نہیں لیکن گرانا وہ خوب جانتے ہیں اور پھر جب گرانے پر آتے ہیں تو ہاتھوں سے نہیں ہمیشہ سینہ کے زور سے گرا دیتے ہیں۔ ان کی زبان اور ان کی لغت بالکل الگ تھلگ ہے۔ ان پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔
Top