اور آپ ﷺ کے ذکر کو بھی ہم نے بلند کر دیا
4 ؎ جس طرح پہلی آیت میں ( لک) کا اختصاص ہے اور اسی طرح اس آیت میں بھی ہے وہاں بھی اس کو تائید و نصرت کے اظہار کے لیے بیان کیا ہے اور یہاں بھی مراد اس کی تائید و نصرت کا اظہار ہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ کی تقویت اور حوصلہ افزائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا ذکر دور دور تک پھیلادیا ہے یا پھیلا دینے کا وعدہ کیا ہے گویا آپ ﷺ کو باور کرایا جا رہا ہے کہ مکہ والوں کی مخالفت آپ ﷺ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ مکہ سے باہر دور دور تک آپ ﷺ کے نام کا چرچا ہو رہا ہے اور آپ ﷺ کے کام کی باتیں سنی اور سنائی جا رہی ہیں ۔ اگر مکہ کے لوگ آپ ﷺ کا مذاق اڑا رہے ہیں اور آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کا اعلان ان کو ہضم نہیں ہو رہا ہے اور یہ لوگ غور و فکر نہیں کر رہے تو آپ ﷺ ان کی ان سرکشیوں کے باعث بد دل نہ ہوں اس طرح گویا آپ ﷺ کو یہ تسلی بھی دی گئی ہے اور یہ بات بھی سمجھائی گئی ہے کہ آپ ﷺ صرف ان سادات مکہ ہی کے لیے نبی و رسول نہیں بنائے گئے بلکہ سارے عالم انسانیت کے لیے نبی و رسول بنائے گئے ہیں اس لیے جس جگہ بھی آپ ﷺ کی بات چلے گی وہ رنگ لائے گی اگر دیئے کی پیٹھ پیچھے اندھیرا ندھیراہی دکھائی دیتا ہے تو کیا اس کی روشنی سے انکار کیا جاسکتا ہے ۔ ہاں ! روشنی کا ایک اپنا مقام ہے اور اندھیرے کا ایک اپنا مقام ہے صرف اندھیرا دیکھ کر روشنی کا انکار کردینا صحیح نہیں ہے یہ مکہ والوں کو بھول لگی ہے اگر ان کو بھول لگی ہے کہ یہ دیئے کی پیٹھ ہی اندھیرے کو دیکھ رہے ہیں تو یہ لوگ اپنی سعادت و خوش نصیبی پر خود ٹانگ پھیر رہے ہیں ہم نے تو خاندانی طور پر ان ہی کی پذیرائی کا انتظام کیا ہے اگر وہ اس سے فائدہ حاصل نہیں کر رہے تو اس سے فائدہ حاصل کرنے والے بھی موجود ہیں ۔ اب آپ ﷺ کو سمجھ لینا چاہیے کہ آپ ﷺ کا نام دبنے والا نہیں ہے بلکہ بچہ بچہ کی زبان پر پڑھنے والا ہے۔ قریش مکہ اگر اس پر دھیان نہیں دے رہے تو مکہ کے اطراف و اکناف میں اشھد ان لا الا اللہ واشھد ان محمد ًاعبدہٗ ورسولہٗ پڑھا جا رہا ہے اور آپ ﷺ کے لیے یہ وہ سعادت ہے جس سعادت سے انکار کرنے والے بہرے ، اندھے اور گونگے ہو سکتے ہیں جو کچھ شعور سے کام لینے والے ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ آپ کا نام بھی بلند ہے اور کام بھی اور یہ بھی کہ آپ ﷺ کے نام کو بلند ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا اور نہ ہی کام کے بلند ہونے کو کوئی روک سکتا ہے۔ یہ وعدہ الٰہی ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہوگا وہاں آپ ﷺ کا نام بھی بلند ہوگا کیونکہ اللہ کے نام کے مظہر آپ ﷺ ہیں جہاں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوگی وہاں آپ ﷺ کی عبدیت اور رسالت کا اقرار بھی کیا جائے گا جہاں خالق کا ذکر آئے گا وہاں مخلوق کا ذکر کیوں نہیں ہوگا کیونکہ مخلوق کے نظریہ ہی نے خالق کے نام کو بلند کیا ہے اور اب دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں تو مخلوق کو مخلوق باور کرانے کے نام کو درمیان سے کیسے حذف کیا جاسکتا ہے ۔ اسلام کے کلمہ اول پر غور کرو کہ وہ صرف لا الہ الا اللہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے الٰہ ہونے پر ختم نہیں کیا گیا بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس کی تکمیل ہوتی ہے پھر آپ ﷺ کے نام کے بلند کرنے کا اور کیا سرٹیفکیٹ دیا جاسکتا ہے یا یوں کہو کہ اس سے زیادہ بڑی سند اور کیا ہو سکتی ہے ؟
ذرا غور کرو کہ کیا حکمت ہے ان الفاظ میں جو قرآن کریم میں نازل کیے گئے ؟ فرمایا گیا کہ اے پیغمبر اسلام ! ہم نے آپ ﷺ کے لیے آپ ﷺ کا ذکر بلند کردیا یہ ” آپ کے لیے “ کے الفاظ کیوں بولے گئے ؟ محض اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا محتاج نہیں تھا کہ آپ ﷺ کا ذکر بلند کرنے میں اس کی کوئی احتیاج تھی یہ محض آپ ﷺ کی خاطر ہے کہ آپ ﷺ کے اعداء اور دشمن اپنی عداوت اور دشمنی کے اندر گھل گھل کر مر جائیں اور جس کا نام لینے میں ان کو نفرت ہے ، جس کام سے ان کو نفرت ہے ان کی نفرت کے علی الرغم وہ نام اور وہ کام ان کے چو طرفہ بلند ہونا شروع ہوجائے اور ان کی دشمنی و عداوت آپ ﷺ کا نام بلند ہونے اور آپ ﷺ کا کام جاری ہونے میں باوجود مزاحمت کے مزاحم نہ ہو سکے تو یہ سو جو توں کا ایک جوتا ہے جو نبی اعظم وآخر ﷺ کے دشمنوں اور مخالفوں کے سر پر پڑا ہے اور یہی وہ خدا کی لاٹھی ہے جس سے آواز بھی پیدا نہیں ہوتی اور اس نے آپ ﷺ کی مخالفتوں کا بھی کام تمام کردیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذکر خیر کو بھی بلند کیا اور ایک وہ وقت تھا کہ آپ ﷺ کے نام کو کوئی جانتا ہی نہ تھا اور چار دانگ اس کا شہر بلند کرا دیا ۔ آپ ﷺ کے ابتدائی زمانہ کے حالات کو پڑھو اور آپ ﷺ کی تنہائی ، گمنامی ، بےکسی اور بےبسی پر غور کرو اور آپ ﷺ کی اس عظمت و شان پر نگاہ ڈالو جو اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے بعد آپ ﷺ کو عطا کی تو ساری بات خود بخود واضح ہوجائے گی کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم شامل حال ہو تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ دنیا کے شہنشاہ اس کے جوتوں کو اٹھانا اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں ۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم۔