پس بلا شبہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے
5 ؎ کیا زریں اصول ہے جو صرف دو الفاظ میں بند کردیا گیا ہے اور کتنی وسعت ہے جو اس کے اندر سمودی گئی ہے اگر انسان اس کو سمجھ جائے اور اس پر یقین رکھتا ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی یہ تو ایک انسان کا حال ہے اور اگر کوئی جماعت ایسی ہو جس کا اس پر پختہ یقین ہو اور اس کا ہر فرد اس بات پر ایمان رکھتا ہو تو اس کی ہمت کو بلند اور حوصلہ کو وسیع کردیتا ہے اور صبر اور استقامت اور جدوجہد کی روح اس کے اندر پیدا کردیتا ہے ۔ غور کرو کہ یہ وعدہ الٰیک کوئی معمولی چیز نہیں ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ کوئی مشکل دنیا میں ایسی نہیں ہے جو آسان نہ کردی گئی ہو مطلب یہ ہے کہ کوئی مشکل ایسی نہیں ہے کہ جو کسی نہ کسی آسانی کا پیش خیمہ نہ ہو ۔ گویا ہر مشکل کے ساتھ آسانی لازم ہے اور یہ وہ بات ہے جو بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی انسان کا حوصلہ پست نہیں ہونے دیتی ؎
رنج خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں
پھر اس کی حکمت پر ذرا غور کرو کہ عسر پر الف لام لگا کر اسے تو خاص کردیا اور یسر کو نکرہ ہی رکھا گیا اور اس فقرہ کو دوہرا کر وعدہ اس طرح کیا گیا کہ ہر عسر کے ساتھ دوگنا یسر رکھا گیا ہے یعنی مشکل کے بعد جو آسانی آتی ہے وہ مشکل سے دو چند ہوتی ہے ۔ گویا جتنی مشکل بڑی اور پھر بڑی سے بھی بڑی اتنی ہی آسانی سے بڑی اور پھر بڑی سے بھی بڑی ۔ پھر اسی اصول پر رکھ کر آپ ﷺ کی کسی مشکل کو دیکھو تو ایمان تازہ ہوجائے گا کہ یہ بات کتنی بڑی حقیقت ہے پھر صرف آپ ﷺ ہی کی نہیں آپ اپنی کسی مشکل پر نظر دوڑائیں اور پھر مشکل کے بعد جو آسانی ملی اس پر نظر کریں کیونکہ یہ وعدہ الٰہی صرف نبی اعظم و آخر ﷺ سے خاص نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص کے ساتھ ہے جو اس پر ایمان رکھتا ہو اور اس حقیقت کو ایک حقیقت سمجھتا ہو ۔ یہ دوسری بات ہے کہ جتنا پختہ ایمان نبی کریم ﷺ کا اس پر تھا اتنا پختہ ایمان کسی دوسرے کا نہ ہو تو ظاہر ہے کہ جو بات مشروط ہے وہ شرط کے ساتھ لازم ہے ایک شرط جتنی مضبوط ہوگی دوسری اتنی ہی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائے گی اور ایک شرط اگر فوت ہوجائے تو دوسری خود بخود فوت ہوجاتی ہے۔ اس طرح ایک شرط جتنی ڈھیلی ہوگی دوسری بھی اتنی ہی ڈھیلی ہوجائے گی کہ اصول اس میں یہ ہے کہ فات الشرط فات المشروط مختصر یہ کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہونے کے اصول نے انسان کو بہت کچھ دیا ہے اتنا کچھ کہ اگر اس کی وضاحت کی جائے تو جس طرح علوم ختم نہیں ہوں گے ان کی وضاحت بھی ختم نہیں ہوگی اور اگر صرف اور صرف یہ ایک اصول پیش نظر رہ جائے تو لاریب کوئی مشکل خواہ وہ کتنی بڑی ہی مشکل ہو مشکل نہیں رہتی اور پھر اس آیت کے دوہرانے میں جو تاکید نکلتی ہے وہ اس کے علاوہ ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔