بلا شبہ ہر تنگی کے بعد فراخی لازم ہے
6 ؎ گزشتہ بات کی تائید و تاکید کے لیے دوبارہ دہرایا گیا ہے اور اس دور میں اس کو دہرایا گیا ہے جن حالات میں ساری دنیا مخالف ہے ۔ مکہ کے نامور سادات و سردار اور چند نفوس کے علاوہ سارے کے سارے عوام اللہ تعالیٰ کی اس روشنی کو بجھانے کے درپے ہیں ۔ جس گلی سے گزرتے ہیں وہاں کوڑے اور غلاظت کے ڈھیر لگائے جاتے ہیں ۔ کوئی پوچھے کہ اس گلی سے صرف اور صرف آپ ﷺ ہی کا گزر ہوتا ہے ؟ بلا شبہ نہیں لیکن آپ ﷺ کو دکھ دینے کے لیے خود بھی دکھ برداشت کر رہے ہیں لیکن عادت سے باز نہیں آتے ۔ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں جب کہ آپ ﷺ بیت اللہ کے اندر ہیں اور لوگ مرے ہوئے اونٹ کا بوجھ لا کر آپ ﷺ کی پیٹھ پر رکھ دیتے ہیں ۔ دشمنی تو آپ ﷺ کے ساتھ تھی لیکن نا پاک انہوں نے بیت اللہ کو بھی کردیا جس کی پاکیزگی اور طہارت کا ان کو بھی انکار نہیں ہے اور پھر اس اوجھ کو لا کر رکھنے کی صعوبت و تکلیف بھی کچھ کم نہ تھی لیکن انہوں نے اس کو بھی برداشت کیا ، کیوں ؟ محض آپ ﷺ کی دشمنی میں لیکن ان حالات کے پیش نظر آیت جو نازل ہو رہی ہے وہ تحدی اور چیلنج کے ساتھ نازل کی گئی ہے اس وقت کون اس کا تصور کرسکتا ہے کہ آپ ﷺ کا ذکر مبارک دنیا کے گوشہ گوشہ میں بلند ہوگا اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی روشنی سے مہذب دنیا کا بہت بڑا علاقہ منور ہوگا اور کروڑوں انسان آپ ﷺ کے نام پر جان دینے کو اپنے لیے باعث سعادت تصور کریں گے لیکن جو وعدہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام اپنے بر گزیدہ بندے اور اپنے نبی و رسول محمد رسول اللہ ﷺ سے کیا وہ حرف بہ حرف پورا ہو کر رہا اور قیامت تک آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کا آفتاب کبھی نہیں ڈوبے گا ۔ وہ وقت تھا کہ کفار مسلمانوں کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ تم نادار اور مفلس ہو ، تم کمزور اور ناتواں ہو ، ہم تم کو پیس کر رکھ دیں گے ۔ ہم تمہارا نام و نشان تک مٹا دیں گے اور پھر وہ جو شخص اسلام کو قبول کرتا اس کو ہر قسم کے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے اور جب وہ درد سے فریاد کرتا تو اس کی فریاد کو سن کر سب مل کر ایک خوب قہقہہ لگاتے اور اس کو تڑپتے دیکھ کر خوب پٹاخے دارتالیاں بجاتے اور خوشی کے نعرے بلند کرتے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے ذریعہ ان کی ڈھارس بندھا رہے ہیں کہ ان تکلفواں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہمارا یہ قانون ہے کہ ہر تکلیف کے بعد راحت ہوتی ہے ۔ یہ تکالیف جن سے مسلمان دو چار ہیں اور یہ عسرت اور تنگی جس کے باعث بیگانے زبان طعن دراز کیا کرتے ہیں یقینا ختم ہوجائے گی اور عزت و اقبال ، خوش حالی اور فارغ البالی کا ایک درخشاں دور شروع ہوگا اور بلا شبہ ہمارا قانون حرکت میں آئے گا اور نالائقوں کی نالائقیوں کو طشت ازبام کر دے گا اور یہ بھی کہ آپ ﷺ کی مشکلات آسانیوں میں بدلنا شروع ہوجائیں گی لیکن ابھی آپ ﷺ کے کرنے کے کام بہت ہیں اور ان کی طرف آپ ﷺ کی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔