Tafseer-e-Usmani - Yunus : 11
وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ١ؕ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُعَجِّلُ : جلد بھیجدیتا اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کو الشَّرَّ : برائی اسْتِعْجَالَھُمْ : جلد چاہتے ہیں بِالْخَيْرِ : بھلائی لَقُضِيَ : تو پھر ہوچکی ہوتی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَجَلُھُمْ : ان کی عمر کی میعاد فَنَذَرُ : پس ہم چھوڑ دیتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہماری ملاقات فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے ہیں
اور اگر جلدی پہنچا دے اللہ لوگوں کو برائی جیسے کہ جلدی مانگتے ہیں وہ بھلائی تو ختم کردی جائے ان کی عمر سو ہم چھوڑے رکھتے ہیں ان کو جن کو امید نہیں ہماری ملاقات کی ان کی شرارت میں سرگرداں13
13 دو آیت پہلے فرمایا تھا جو لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے۔ ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ یہاں یہ بتلانا ہے کہ خدا ایسے مجرموں کو دنیا میں فوراً نہیں پکڑتا بلکہ مہلت دیتا ہے۔ حالانکہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ کبھی بےباک و بےحیا بن کر خود اپنے اوپر جلد عذاب آنے کا مطالبہ کرتے ہیں مثلاً کہتے ہیں (اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ ) 8 ۔ الانفال :32) کبھی دنیاوی حوادث سے تنگ آکر اپنے یا اپنی اولاد وغیرہ کے حق میں بددعائیں کرنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ تجربہ سے ظاہر ہے۔ اب اگر خدا تعالیٰ ان کی درخواست و دعاء کے موافق فوراً ہاتھوں ہاتھ کوئی عذاب یا برائی اس قدر جلد ان کو پہنچا دے جتنی جلد وہ بھلائی کے پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں تو بدی کے وبال سے ایک منٹ بھی فرصت نہ پائیں اور رشتہ حیات اسی وقت منقطع ہوجائے، مگر خدا کے یہاں نیکی و بدی دونوں میں حسب مصلحت تاخیر و تحمل ہوتا ہے، تاکہ نیک لوگ تربیت پائیں اور بدکار غفلت میں پڑے رہ کر پیمانہ شرارت لبریز کرلیں۔
Top