Tafseer-e-Usmani - Yunus : 29
فَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِیْنَ
فَكَفٰى : پس کافی بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًۢا : گواہ بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان اِنْ : کہ كُنَّا : ہم تھے عَنْ : سے عِبَادَتِكُمْ : تمہاری بندگی لَغٰفِلِيْنَ : البتہ بیخبر (جمع)
سو اللہ کافی ہے شاہد ہمارے اور تمہارے بیچ میں ہم کو تمہاری بندگی کی خبر نہ تھی4
4 یعنی اسی وقت عجیب افراتفری اور نفسی نفسی ہوگی۔ عابدین و معبودین میں جدائی پڑجائے گی اور دنیا میں اپنے اوہام و خیالات کے موافق جو رشتے جوڑ رکھے تھے، سب توڑ دیے جائیں گے۔ اس ہولناک وقت میں جبکہ مشرکین کو اپنے فرضی معبودوں سے بہت کچھ توقعات تھیں، وہ صاف جواب دے دیں گے کہ تمہارا ہم سے کیا تعلق۔ تم جھوٹ بکتے ہو کہ ہماری بندگی کرتے تھے (تم اپنے عقیدہ کے موافق جس چیز کو پوجتے تھے اس کے لیے وہ خدائی صفات تجویز کرتے تھے، جو فی الواقع اس میں موجود نہیں تھیں تو حقیقت میں وہ عبادت اور بندگی واقعی " مسیح " یا " ملائکہ " کی نہ ہوئی اور نہ حقیقت میں بےجان مورتیوں کی پوجا تھی۔ محض اپنے خیال اور وہم یا شیطان لعین کی پرستش کو فرشتے یا نبی یا نیک انسان یا کسی تصویر وغیرہ کے نامزد کردیتے تھے) خدا گواہ ہے کہ ہماری رضا یا اذن سے تم نے یہ حرکت نہیں کی۔ ہم کو کیا خبر تھی کہ انتہائی حماقت و سفاہت سے خدا کے مقابلہ میں ہمیں معبود بنا ڈالو گے۔ (تنبیہ) یہ گفتگو اگر حضرت " مسیح " وغیرہ ذوی العقول مخلوق کی طرف سے مانی جائے تو کوئی اشکال نہیں۔ اور " اصنام " (بتوں) کی جانب سے ہو تو کچھ بعید نہیں کہ حق تعالیٰ مشرکین کی انتہائی مایوسی اور حسرت ناک درماندگی کے اظہار کے لیے اپنی قدرت کاملہ سے پتھر کی مورتیوں کو گویا کر دے۔ (قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْٓ اَنْــطَقَ كُلَّ شَيْءٍ ) 41 ۔ فصلت :21)
Top