Tafseer-e-Usmani - Hud : 28
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْكُمْ١ؕ اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اَرَءَيْتُمْ : تم دیکھو تو اِنْ : اگر كُنْتُ : میں ہوں عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : واضح دلیل مِّنْ رَّبِّيْ : اپنے رب سے وَاٰتٰىنِيْ : اور اس نے دی مجھے رَحْمَةً : رحمت مِّنْ عِنْدِهٖ : اپنے پاس سے فَعُمِّيَتْ : وہ دکھائی نہیں دیتی عَلَيْكُمْ : تمہیں اَنُلْزِمُكُمُوْهَا : کیا ہم وہ تمہیں زبردستی منوائیں وَاَنْتُمْ : اور تم لَهَا : اس سے كٰرِهُوْنَ : بیزار ہو
بولا اے قوم دیکھو تو اگر میں ہوں صاف راستہ پر اپنے رب کے اور اس نے بھیجی مجھ پر رحمت اپنے پاس سے، پھر اس کو تمہاری آنکھ سے مخفی رکھا، تو کیا ہم تم کو مجبور کرسکتے ہیں اس پر اور تم اس سے بیزار ہو1
1 یعنی یہ صحیح ہے کہ پیغمبر کو عام انسانوں سے بالکل ممتاز ہونا چاہیے لیکن وہ امتیاز مال و دولت ملک و حکومت اور دنیا کی ٹیپ ٹاپ میں نہیں، بلکہ اعلیٰ اخلاق، بہترین ملکات، تقویٰ ، خدا ترسی، حق پرستی، درمندی، خلائق اور ان صریح آیات و نشانات پیش کرنے سے ان کو امتیاز حاصل ہوتا ہے جو حق تعالیٰ بطور اتمام حجت و اکمال نعمت ان کے اندر قائم کرتا یا ان کے ذریعہ سے ظاہر فرماتا ہے۔ وہ وحی الٰہی اور ربانی دلائل و براہن کی روشنی میں صاف راستہ پر چلتے ہیں اور دن رات خدا کی خصوصی رحمتیں ان پر بارش کی طرح برستی ہیں۔ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر یہ سب چیزیں مجھ میں کھلے طور پر موجود ہوں اور یقینا موجود ہیں۔ لیکن جس طرح اندھے کو سورج کی روشنی نظر نہیں آتی، تمہاری آنکھیں بھی اس نور الٰہی کے دیکھنے سے قاصر رہیں، تو کیا ہم زبردستی مجبور کر کے تم سے اس نور اور رحمت کا اقرار کرا سکتے ہیں جس سے تم اس قدر نفور و بیزار ہو کہ آنکھ کھول کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ میری بزرگی و برتری جو تم کو نظر نہیں آتی، یہ اس لیے ہے کہ تمہارے دل کی آنکھیں اندھی ہیں یا بند ہیں۔
Top