Tafseer-e-Usmani - Al-Hijr : 18
اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ
اِلَّا : مگر مَنِ : جو اسْتَرَقَ : چوری کرے السَّمْعَ : سننا فَاَتْبَعَهٗ : تو اس کا پیچھا کرتا ہے شِهَابٌ : شعلہ مُّبِيْنٌ : چمکتا ہوا
مگر جو چوری سے سن بھاگا سو اس کے پیچھے پڑا انگارہ چمکتا ہوا4
4 یعنی آسمانوں پر شیاطین کا کچھ عمل دخل نہیں چلتا۔ بلکہ بعثت محمدی ﷺ کے وقت سے تو ان کا گزر بھی وہاں نہیں ہوسکتا۔ اب انتہائی کوشش ان کی یہ ہوتی ہے کہ ایک شیطانی سلسلہ قائم کر کے آسمان کے قریب پہنچیں اور عالم ملکوت کے نزدیک ہو کر اخبار غیبیہ کی اطلاعات حاصل کریں، اس پر بھی فرشتوں کے پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں کہ جب شیاطین ایسی کوشش کریں اوپر سے آتشباری کی جائے۔ نصوص قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تکوینی امور کے متعلق آسمانوں پر جب کسی فیصلہ کا اعلان ہوتا ہے اور خداوند قدوس اس سلسلہ میں فرشتوں کی طرف وحی بھیجتا ہے تو وہ اعلان ایک خاص کیفیت کے ساتھ اوپر سے نیچے کو درجہ بدرجہ پہنچتا ہے آخر سماء دنیا پر اور بخاری کی ایک روایت کے موافق " عنان " (بادل) میں فرشتے اس کا مذاکرہ کرتے ہیں۔ شیاطین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان معاملات کے متعلق غیبی معلومات حاصل کریں، اسی طرح جیسے آج کوئی پیغام بذریعہ وائرلیس ٹیلیفون جارہا ہو اسے بعض لوگ راستہ میں جذب کرنے کی تدبیر کرتے ہیں، ناگہاں اوپر سے بم کا گولہ (شہاب ثاقب) پھٹتا ہے۔ اور ان غیبی پیغامات کی چوری کرنے والوں کو مجروح یا ہلاک کر کے چھوڑتا ہے۔ اسی دوادوش اور ہنگامہ داروگیر میں جو ایک آدھ بات شیطان کو ہاتھ لگ جاتی ہے وہ ہلاک ہونے سے پیشتر بڑی عجلت کے ساتھ دوسرے شیاطین کو اور وہ شیاطین اپنے دوست انسانوں کو پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کاہن لوگ اسی ادھوری بات میں سینکڑوں جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر عوام کو غیبی خبریں بتلاتے ہیں۔ جب وہ ایک آدھ سماوی بات سچی نکلتی ہے تو ان کے معتقدین اسے ان کی سچائی کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور جو سینکڑوں بنائی ہوئی خبریں جھوٹی ثابت ہوتی ہیں ان سے اغماض و تغافل برتا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث نے یہ واقعات بیان کر کے متنبہ کردیا کہ کسی ادنیٰ اور چھوٹی سے چھوٹی سچائی کا سرچشمہ بھی وہ ہی عالم ملکوت ہے۔ شیاطین الجن والانس کے خزانہ میں بجز کذب و افتراء کوئی چیز نہیں۔ نیز یہ کہ آسمانی انتظامات اس قدر مکمل ہیں کہ کسی شیطان کی مجال نہیں وہاں قدم رکھ سکے یا باوجود انتہائی جدوجہد کے وہاں کے انتظامات اور فیصلوں پر معتدبہ دسترس حاصل کرلے۔ باقی جو ایک آدھ جملہ ادھر ادھر کا فرشتوں سے سن بھاگتا ہے حق تعالیٰ نے ارادہ نہیں کیا کہ اس کی قطعاً بندش کردی جائے۔ وہ چاہتا تو اس سے بھی روک دیتا، مگر یہ بات اس کی حکمت کے موافق نہ تھی۔ آخر شیاطین الجن والانس کو جن کی بابت اسے معلوم ہے کہ کبھی اغواء واضلال سے باز نہ آئیں گے اتنی طویل مہلت اور مغویانہ اسباب و وسائل پر دسترس دینے میں کچھ نہ کچھ حکمت تو سب کو ماننی پڑے گی۔ اسی طرح کی حکمت یہاں بھی سمجھ لو (تنبیہ) شیاطین ہمیشہ شہابوں کے ذریعہ سے ہلاک ہوتے رہتے ہیں۔ مگر جس طرح قطب جنوبی اور ہمالیہ کی بلند تر چوٹی کی تحقیق کرنے والے مرتے رہتے ہیں اور دوسرے ان کا یہ انجام دیکھ کر اس مہم کو ترک نہیں کرتے۔ اسی پر شیاطین کی مسلسل جدوجہد کو قیاس کرلو۔ یہ واضح رہے کہ قرآن و حدیث نے یہ نہیں بتلایا کہ شہب کا وجود صرف رجم شیاطین ہی کے لیے ہوتا ہے۔ ممکن ہے ان کے وجود سے اور بہت سے مصالح وابستہ ہوں اور حسب ضرورت یہ کام بھی لیا جاتا ہو۔ واللہ اعلم۔
Top