Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 92
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا١ؕ تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِیَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ١ؕ اِنَّمَا یَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ١ؕ وَ لَیُبَیِّنَنَّ لَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
وَ : اور لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہوجاؤ كَالَّتِيْ : اس عورت کی طرح نَقَضَتْ : اس نے توڑا غَزْلَهَا : اپنا سوت مِنْۢ بَعْدِ : بعد قُوَّةٍ : قوت (مضبوطی) اَنْكَاثًا : ٹکڑے ٹکڑے تَتَّخِذُوْنَ : تم بناتے ہو اَيْمَانَكُمْ : اپنی قسمیں دَخَلًۢا : دخل کا بہانہ بَيْنَكُمْ : اپنے درمیان اَنْ : کہ تَكُوْنَ : ہوجائے اُمَّةٌ : ایک گروہ هِىَ : وہ اَرْبٰى : بڑھا ہوا (غالب) مِنْ : سے اُمَّةٍ : دوسرا گروہ اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَبْلُوْكُمُ : آزماتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے وَلَيُبَيِّنَنَّ : اور وہ ضرور ظاہر کریگا لَكُمْ : تم پر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مَا : جو كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : اس میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے تم
اور مت رہو جیسے وہ عورت کہ توڑا اس نے اپنا سوت کاتا ہوا محنت کے بعد ٹکڑے ٹکڑے4 کہ ٹھہراؤ اپنی قسموں کو دخل دینے کا بہانہ ایک دوسرے میں اس واسطے کہ ایک فرقہ ہو چڑھا ہوا دوسرے سے5 یہ تو اللہ پرکھتا ہے تم کو اس سے6  اور آئندہ کھول دے گا اللہ تم کو قیامت کے دن جس بات میں تم جھگڑ رہے تھے7
4 یعنی عہد باندھ کر توڑ ڈالنا ایسی حماقت ہے جسے کوئی عورت دن بھر سوت کا تے، پھر کتا کتایا سوت شام کے وقت توڑ کر پارہ پارہ کر دے۔ چناچہ مکہ میں ایک دیوانی عورت ایسا ہی کیا کرتی تھی، مطلب یہ ہے کہ معاہدات کو محض کچے دھاگے کی طرح سمجھ لینا کہ جب چاہا کاتا اور جب چاہا انگلیوں کی ادنیٰ حرکت سے بےتکلف توڑ ڈالا سخت ناعاقبت اندیشی اور دیوانگی ہے۔ بات کا اعتبار نہ رہے تو دنیا کا نظام مختل ہوجائے۔ قول وقرار کی پابندی ہی سے عدل کی ترازو سیدھی رہ سکتی ہے۔ جو قومیں قانون عدل و انصاف سے ہٹ کر محض اغراض و خواہشات کی پوجا کرنے لگتی ہیں، ان کے یہاں معاہدات صرف توڑنے کے لیے رہ جاتے ہیں جہاں معاہد قوم کو اپنے سے کمزور دیکھا، سارے معاہدات ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے گئے۔ 5 یعنی معاہدوں اور قسموں کو فریب و دغا، مکاری اور حیلہ سازی کا آلہ مت بناؤ۔ جس طرح اہل جاہلیت کی عادت تھی کہ ایک جماعت کو اپنے سے طاقتور دیکھ کر معاہدہ کرلیا پھر جس وقت کوئی جماعت اس سے بڑھ کر معزز اور طاقتور سامنے آئی، پہلا معاہدہ توڑ کر نئی جماعت سے عہد و پیمان گانٹھ لیے۔ پھر چند روز بعد ان خلفاء کو کمزور بنانے اور اپنے کو بڑھانے کا موقع پایا تو فوراً معاہدات توڑ ڈالے اور سب قسمیں اور حلف بالائے طاق رکھ دیئے۔ بعینہ جس طرح آجکل یورپین اقوام کا معمول ہے۔ 6  یعنی قوت و ضعف میں اقوام کا اختلاف ان میں سے کسی کو اوپر چڑھانا کس کو نیچے گرانا، خدا تعالیٰ نے تمہاری آزمائش کے لیے رکھا ہے اور ایفائے عہد کا حکم دینے میں بھی تمہارا امتحان ہے۔ دیکھتے ہیں کون ثابت قدم رہتا ہے کہ اپنا عہد پورا کرنے میں حلفاء کی قوت و ضعف کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ باقی اقبال و ادبار کسی کے بدلے سے بدلا نہیں جاتا۔ ادبار کی جگہ اقبال اور ضعف کی جگہ قوت خدا ہی لائے تو آئے۔ ہاں بدعہدی کا خیال آنا اس کی علامت ہے کہ ادبار آنے والا ہے۔ 7 یعنی یہاں امتحان ہے نتیجہ امتحان قیامت کے دن کھل جائے گا۔ جس وقت ضعف و طاقت کے سب جھگڑے چکا دیئے جائیں گے۔
Top