Tafseer-e-Usmani - Maryam : 31
وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ١۪ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا٢۪ۖ
وَّجَعَلَنِيْ : اور مجھے بنایا ہے مُبٰرَكًا : بابرکت اَيْنَ مَا : جہاں کہیں كُنْتُ : میں ہوں ‎وَاَوْصٰىنِيْ : مجھے حکم دیا ہے اس نے بِالصَّلٰوةِ : نماز کا وَالزَّكٰوةِ : اور زکوۃ کا مَا دُمْتُ : جب تک میں رہوں حَيًّا : زندہ
اور بنایا مجھ کو برکت والا جس جگہ میں ہوں اور تاکید کی مجھ کو نماز کی اور زکوٰۃ کی جب تک میں رہوں زندہ2
2 یعنی جب تک زندہ ہوں، جس وقت اور جس جگہ کے مناسب جس قسم کی صلوٰۃ و زکوٰۃ کا حکم ہو، اس کی شروط و حقوق کی رعایت کے ساتھ برابر ادا کرتا رہوں۔ جیسے دوسری جگہ مومنین کی نسبت فرمایا (الَّذِيْنَ هُمْ عَلٰي صَلَاتِهِمْ دَاۗىِٕمُوْنَ ) 70 ۔ المعارج :23) اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر آن اور ہر وقت نمازیں پڑھتے رہتے ہیں۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ جس وقت جس طرح کی نماز کا حکم ہو ہمیشہ پابندی سے تعمیل حکم کرتے ہیں اور اس کی برکات و انوار ہمہ وقت ان کو محیط رہتی ہیں۔ کوئی شخص کہے کہ ہم جب تک زندہ ہیں۔ نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج وغیرہ کے مامور ہیں کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ ہر ایک مسلمان مامور ہے کہ ہر وقت نماز پڑھتا ہے، ہر وقت زکوٰۃ دیتا ہے (خواہ نصاب کا مالک ہو یا نہ ہو) ہر وقت روزے رکھتا ہے، ہر وقت حج کرتا ہے۔ حضرت مسیح کے متعلق بھی (مَا دُمْتُ حَيًّا) 19 ۔ مریم :31) کا ایسا ہی مطلب سمجھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ لفظ " صلوٰۃ " کچھ اصطلاحی نماز کے ساتھ مخصوص نہیں، قرآن نے ملائکہ اور بشر سے گزر کر تمام جہان کی طرف صلوٰۃ کی نسبت کی ہے۔ (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ ) 24 ۔ النور :44) اور یہ بھی بتلا دیا کہ ہر چیز کی تسبیح و صلوٰۃ کا حال اللہ ہی جانتا ہے کہ کس کی صلوٰۃ و تسبیح کس رنگ کی ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کے معنی بھی اصل میں طہارت، نماز، برکت و مدح کے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک معنی کا استعمال قرآن و حدیث میں اپنے اپنے موقع پر ہوا ہے۔ اسی رکوع میں حضرت مسیح کی نسبت " غُلَامًا زَکِیًّا " کا لفظ گزر چکا جو زکوٰۃ سے مشتق ہے۔ اور یحيٰ (علیہ السلام) کو فرمایا (وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَزَكٰوةً ) 19 ۔ مریم :13) سورة کہف میں ہے (خَيْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا) 18 ۔ الکہف :81) اسی طرح کے عام معنی یہاں بھی زکوٰۃ کے لیے جاسکتے ہیں۔ اور ممکن ہے (۠‎وَاَوْصٰىنِيْ بالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ ) 19 ۔ مریم :31) سے اَوْصَانِیْ بِأَنْ اٰمُرَ بالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مراد ہو جیسے اسماعیل (علیہ السلام) کی نسبت فرمایا (وَكَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ ) 19 ۔ مریم :55) پھر لفظ " اوصانی " اپنے مدلول لغوی کے اعتبار سے اس کو مقتضی نہیں کہ وقت ایصاء ہی سے اس پر عمل درآمد شروع ہوجائے۔ نیز بہت ممکن ہے کہ " مَادُمْتُ حَیًّا " سے یہ ہی زمینی حیات مراد لے لی جائے۔ جیسے ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ جابر ؓ کے والد کو اللّٰہ نے شہادت کے بعد زندہ کر کے فرمایا کہ مجھ سے کچھ مانگ، اس نے کہا مجھے دوبارہ زندہ کر دیجئے کہ دوبارہ تیرے راستہ میں قتل کیا جاؤں۔ اس زندگی سے یقینا زمینی زندگی مراد ہے ورنہ شہداء کے لیے نفس حیات کی قرآن میں اور خود اسی حدیث میں تصریح موجود ہے۔ یہ ہی مطلب حیات کا " لَوْکَانَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی حَیِّیْنِ الخ " میں سمجھو۔ اگر بالفرض اس کا حدیث ہونا ثابت ہوجائے۔ " بالفرض " ہم نے اس لیے کہا کہ اس کی اسناد کا کتب حدیث میں کہیں پتہ نہیں۔ واللّٰہ اعلم۔
Top