Tafseer-e-Usmani - Al-Muminoon : 50
وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ۠   ۧ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے (عیسی) کو وَاُمَّهٗٓ : اور ان کی ماں اٰيَةً : ایک نشانی وَّاٰوَيْنٰهُمَآ : اور ہم نے انہیں ٹھکانہ دیا اِلٰى : طرف رَبْوَةٍ : ایک بلند ٹیلہ ذَاتِ قَرَارٍ : ٹھہرنے کا مقام وَّمَعِيْنٍ : اور جاری پانی
اور بنایا ہم نے مریم کے بیٹے اور اس کی ماں کو ایک نشانی11 اور ان کو ٹھکانا دیا ایک ٹیلہ پر جہاں ٹھہرنے کا موقع تھا اور پانی نتھرا12
11 یعنی قدرت الٰہیہ کی نشانی ہے کہ تنہا ماں سے بن باپ کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کردیا۔ جیسا کہ " آل عمران " اور سورة " مریم " میں اس کی تقریر کی جا چکی۔ 12 شاید یہ وہ ہی ٹیلہ یا اونچی زمین ہو جہاں وضع حمل کے وقت حضرت مریم تشریف رکھتی تھیں۔ چناچہ سورة مریم کی آیات (فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَآ اَلَّا تَحْزَنِيْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا 24؀ وَهُزِّيْٓ اِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا 25؀ۡ) 19 ۔ مریم :25-24) دلالت کرتی ہیں کہ وہ جگہ بلند تھی۔ نیچے چشمہ یا نہر بہہ رہی تھی۔ اور کھجور کا درخت نزدیک تھا۔ (کذافسرہ ابن کثیر رحمہ اللّٰہ) لیکن عموماً مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ حضرت مسیح کے بچپن کا واقعہ ہے۔ ایک ظالم بادشاہ ہیردوس نامی نجومیوں سے سن کر کہ حضرت عیسیٰ کو سرداری ملے گی، لڑکپن ہی میں ان کا دشمن ہوگیا تھا اور قتل کے درپے تھا۔ حضرت مریم الہام ربانی سے ان کو لے کر مصر چلی گئیں اور اس ظالم کے مرنے کے بعد پھر شام واپس چلی آئیں۔ چناچہ " انجیل متی " میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے اور مصر کا اونچا ہونا باعتبار رود نیل کے ہے ورنہ غرق ہوجاتا اور " ماء معین " رود نیل ہے بعض نے " ربوہ " (اونچی جگہ) سے مراد شام یا فلسطین لیا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ جس ٹیلہ پر ولادت کے وقت موجود تھیں وہیں اس خطرہ کے وقت بھی پناہ دی گئی ہو۔ واللہ اعلم۔ بہرحال اہل اسلام میں کسی نے " ربوہ " سے مراد کشمیر نہیں لیا۔ نہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی قبر کشمیر میں بتلائی۔ البتہ ہمارے زمانہ کے بعض زائغین نے " ربوہ " سے کشمیر مراد لیا ہے اور وہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بتلائی ہے جس کا کوئی ثبوت تاریخی حیثیت سے نہیں۔ محض کذب و دروغبافی ہے۔ محلہ " خان یار " شہر سری نگر میں جو قبر " یوز آسف " کے نام سے مشہور ہے اور جس کی بابت " تاریخ اعظمی " کے مصنف نے محض عام افواہ نقل کی ہے کہ " لوگ اس کو کسی نبی کی قبر بتاتے ہیں وہ کوئی شہزاداہ تھا اور دوسرے ملک سے یہاں آیا " اس کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بتانا پرلے درجہ کی بےحیائی اور سفاہت ہے۔ ایسی اٹکل پچوں قیاس آرائیوں سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حیات کو باطل ٹھہرانا بجز خبط اور جنون کے کچھ نہیں اگر اس قبر کی تحقیق مطلوب ہو اور یہ کہ " یوز آسف " کون تھا تو جناب منشی حبیب اللہ صاحب امرتسری کا رسالہ دیکھو جو خاص اس موضوع پر نہایت تحقیق و تدقیق سے لکھا گیا ہے۔ اور جس میں اس مہمل خیال کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ عنا وعن سائر المسلمین احسن الجزاء۔
Top