Tafseer-e-Usmani - An-Naml : 25
اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ
اَلَّا : کہ نہیں يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ : وہ سجدہ کرتے اللہ کو الَّذِيْ : وہ جو يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْخَبْءَ : چھپی ہوئی فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا تُخْفُوْنَ : جو تم چھپاتے ہو وَمَا : اور جو تُعْلِنُوْنَ : تم ظاہر کرتے ہو
کیوں نہ سجدہ کریں اللہ کو جو نکالتا ہے چھپی ہوئی چیز آسمانوں میں اور زمین میں اور جانتا ہے جو چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو2
2 غالباً یہ ہُد ہُد کے کلام کا تتمہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جانور اپنے خالق کی صحیح معرفت فطرۃً رکھتے ہیں۔ یا بطور خرق عادت اسی ہدہد کو اس طرح کی تفصیلی معرفت عطا کی گئی ہو۔ خدا چاہے تو ایسی معرفت ایک خشک لکڑی میں پیدا کر دے۔ باقی جانوروں میں فطری طور پر اس قسم کی عقل و معرفت کا موجود ہونا جسے صدر شیرازی نے " اسفار اربعہ " میں " علم حضوری " یا " شعور بسیط " سے تعبیر کیا ہے اس کو مستلزم نہیں کہ ان کی طرف انبیاء مبعوث ہوں۔ کیونکہ یہ فطری معرفت کسبی نہیں، جبلی ہے۔ اور بعث انبیاء کا تعلق کسبیات سے ہوتا ہے نیز یہ صحیح نہیں کہ جس چیز میں کوئی درجہ عقل و شعور کا ہو وہ مکلف بھی ہو۔ مثلاً شریعت حقہ نے صبی کو مکلف قرار نہیں دیا۔ حالانکہ قبل از بلوغ اس میں خاصا درجہ عقل کا موجود ہے، اسی سے حیوانات کی عاقلیت کا اندازہ کرلو۔ (تنبیہ) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " ہد ہد کی روزی ہے ریت سے کیڑے نکال نکال کر کھانا۔ نہ دانہ کھائے نہ میوہ، اس کو اللہ کی اسی قدرت سے کام ہے۔ " شاید اسی لیے یُخْرِجُ الْخَبْ کا خاص طور پر ذکر کیا۔ واللہ اعلم۔
Top