Tafseer-e-Usmani - An-Naml : 65
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ
قُلْ : فرما دیں لَّا يَعْلَمُ : نہیں جانتا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین الْغَيْبَ : غیب اِلَّا اللّٰهُ : سوائے اللہ کے وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں جانتے اَيَّانَ : کب يُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
تو کہہ خبر نہیں رکھتا جو کوئی ہے آسمان اور زمین میں چھپی ہوئی چیز کی مگر اللہ1 اور ان کو خبر نہیں کب جی اٹھیں گے2
1 اس آیت میں مضمون سابق کی تکمیل اور مضمون لاحق کی تمہید ہے۔ شروع پارہ سے یہاں تک حق تعالیٰ کی قدرت تامہ اور ربوبیت کاملہ کا بیان تھا۔ یعنی جب وہ ان صفات و شؤن میں متفرد ہے تو الوہیت و معبودیت میں بھی متفرد ہونا چاہیے۔ آیت حاضرہ میں اس کی الوہیت پر دوسری حیثیت سے استدلال کیا جا رہا ہے۔ یعنی معبود وہ ہوگا جو قدرت تامہ کے ساتھ علم کامل و محیط بھی رکھتا ہو۔ اور یہ وہ صفت ہے جو زمین و آسمان میں کسی مخلوق کو حاصل نہیں، اسی رب العزت کے ساتھ مخصوص ہے۔ پس اس اعتبار سے بھی معبود بننے کی مستحق اکیلی اس کی ذات ہوئی۔ (تنبیہ) کل مغیبات کا علم بجز خدا کے کسی کو حاصل نہیں، نہ کسی ایک غیب کا علم کسی شخص کو بالذات بدون عطائے الٰہی کے ہوسکتا ہے اور نہ مفاتیح غیب (غیب کی کنجیاں جن کا ذکر سورة " انعام " میں گزر چکا) اللہ نے کسی مخلوق کو دی ہیں۔ ہاں بعض بندوں کو بعض عیوب پر باختیار خود مطلع کردیتا ہے جس کی وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شخص کو حق تعالیٰ نے غیب پر مطلع فرما دیا، یا غیب کی خبر دے دی۔ لیکن اتنی بات کی وجہ سے قرآن و سنت نے کسی جگہ ایسے شخص پر " علم الغیب "، " فلان یعلم الغیب " کا اطلاق نہیں کیا۔ بلکہ احادیث میں اس پر انکار کیا گیا ہے۔ کیونکہ بظاہر یہ الفاظ اختصاص علم الغیب بذات الباری کے خلاف موہم ہوتے ہیں۔ اسی لیے علمائے محققین اجازت نہیں دیتے کہ اس طرح کے الفاظ کسی بندہ پر اطلاق کیے جائیں۔ گو لغۃً صحیح ہوں جیسے کسی کا یہ کہنا کہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَعْلَمُ الْغَیْبَ (اللہ کو غیب کا علم نہیں) گو اس کی مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے کوئی چیز غیب ہی نہیں، سخت ناروا اور سوء ادب ہے۔ یا کسی کا حق سے موت اور فتنہ سے اولاد اور رحمت سے بارش مراد لے کر یہ الفاظ کہنا " انی اکرہ الحق وَاُحِبُّ الْفِتْنَۃُ وَافِرُّ مِنَ الرَّحْمَۃِ " (میں حق کو برا سمجھتا ہوں اور فتنہ کو محبوب رکھتا ہوں اور رحمت سے بھاگتا ہوں) سخت مکروہ اور قبیح ہے، حالانکہ باعتبار نیت و مراد کے قبیح نہ تھا۔ اسی طرح فلان عالم الغیب وغیرہ الفاظ کو سمجھ لو اور واضح رہے کہ علم غیب سے ہماری مراد محض ظنون و تخمینات نہیں اور نہ وہ علم جو قرائن و دلائل سے حاصل کیا جائے۔ بلکہ جس کے لیے کوئی دلیل و قرینہ موجود نہ ہو وہ مراد ہے۔ سورة انعام و اعراف میں اس کے متعلق کسی قدر لکھا جا چکا ہے۔ وہاں مراجعت کرلی جائے۔ 2 یعنی قیامت کب آئے گی جس کے بعد مردے دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ اس کی خبر کسی کو نہیں۔ پہلے سے مبداء کا ذکر چلا آتا تھا۔ یہاں سے معاد کا شروع ہوا۔
Top