Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور چاہیے کہ رہے تم میں ایک جماعت ایسی جو بلاتی رہے نیک کام کی طرف اور حکم کرتی رہے اچھے کاموں کا اور منع کریں برائی سے اور وہی پہنچے اپنی مراد کو1
1 یعنی تقویٰ ، اعتصام بحبل اللّٰہ، اتحاد و اتفاق قومی زندگی، اسلامی مواخات، یہ سب چیزیں اس وقت باقی رہ سکتی ہیں جبکہ مسلمانوں میں ایک جماعت خاص دعوت و ارشاد کے لئے قائم رہے۔ اس کا وظیفہ یہ ہی ہو کہ اپنے قول و عمل سے دنیا کو قرآن و سنت کی طرف بلائے اور جب لوگوں کو اچھے کاموں میں سست یا برائیوں میں مبتلا دیکھے، اس وقت بھلائی کی طرف متوجہ کرنے اور برائی سے روکنے میں اپنے مقدور کے موافق کوتاہی نہ کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام وہ ہی حضرات کرسکتے ہیں جو معروف و منکر کا علم رکھنے اور قرآن و سنت سے باخبر ہونے کے ساتھ ذی ہوش اور موقع شناس ہوں، ورنہ بہت ممکن ہے کہ ایک جاہل آدمی معروف کو منکر یا منکر کو معروف خیال کر کے بجائے اصلاح کے سارا نظام ہی مختل کر دے، یا ایک منکر کی اصلاح کا ایسا طریقہ اختیار کرے جو اس سے بھی زیادہ منکرات کے حدوث کا موجب ہوجائے، یا نرمی کی جگہ سختی اور سختی کے موقع میں نرمی برتنے لگے۔ شاید اسی لئے مسلمانوں میں سے ایک مخصوص جماعت کو اس منصب پر مامور کیا گیا جو ہر طرح دعوت الی الخیر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہل ہو۔ حدیث میں ہے جب لوگ منکرات میں پھنس جائیں اور کوئی روکنے والا نہ ہو تو عام عذاب آنے کا اندیشہ ہے۔ باقی یہ کہ کن احوال و اوقات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترک میں آدمی معذور سمجھا جاسکتا ہے اور کن مواقع میں واجب یا مستحب ہے اسکی تفصیل کا یہ موقع نہیں " ابوبکر رازی نے " احکام القرآن میں اس پر نہایت مبسوط کلام کیا ہے۔ فلیراجع۔
Top