Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 181
لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآءُ١ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَهُمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
لَقَدْ سَمِعَ : البتہ سن لیا اللّٰهُ : اللہ قَوْلَ : قول (بات) الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے قَالُوْٓا : کہا اِنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ فَقِيْرٌ : فقیر وَّنَحْنُ : اور ہم اَغْنِيَآءُ : مالدار سَنَكْتُبُ : اب ہم لکھ رکھیں گے مَا قَالُوْا : جو انہوں نے کہا وَقَتْلَھُمُ : اور ان کا قتل کرنا الْاَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّنَقُوْلُ : اور ہم کہیں گے ذُوْقُوْا : تم چکھو عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : جلانے والا
بیشک اللہ نے سنی ان کی بات جنہوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم مالدار1 اب لکھ رکھیں گے ہم ان کی بات اور جو خون کئے ہیں انہوں نے انبیاء کے ناحق اور کہیں گے چکھو عذاب جلتی آگ کا2
1 یعنی محض اتنا ہی نہیں کہ یہود انتہائی بخل کی وجہ سے پیسہ خرچ کرنا نہیں جانتے، بلکہ جب خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم سنتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں اور حق تعالیٰ کی جناب میں گستاخانہ کلمات بکنے سے بھی نہیں شرماتے۔ چناچہ جب آیت (مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا) 2 ۔ البقرۃ :245) نازل ہوئی، کہنے لگے اللہ ہم سے قرض مانگتا ہے تو اللہ فقیر محتاج ہے اور ہم غنی مالدار ہیں، حالانکہ ایک غبی اور کوڑھ مغز بھی سمجھ سکتا ہے کہ انفاق فی وجوہ الخیر کو قرض سے تعبیر فرمانے میں انتہائی رحمت و شفقت کا اظہار تھا۔ ظاہر ہے کہ خدا اپنا دیا ہوا مال ہم سے ہماری مصالح میں ہمارے ہی دنیاوی و اخروی فائدہ کے لئے خرچ کراتا ہے، اس کو ہمارے خرچ سے کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا اور بفرض محال پہنچے بھی تو مال اور ہر چیز اسی کی مملوک ہے۔ پھر حقیقی معنی میں اس کو قرض کیسے کہہ سکتے ہیں۔ یہ اس کا کمال کرم و احسان ہے کہ اس خرچ کا بہترین معاوضہ دینا بھی اپنے ذمہ لازم کرلیا اور اس کو لفظ قرض سے ادا کر کے اس لزوم کو بھی حد موکدہ مسجل کردیا۔ مگر یہود اپنی کور چشمی اور خبث باطن سے احسان ماننے کے بجائے ان لفظوں کی ہنسی اڑانے لگے اور اللہ تعالیٰ کی جانب رفیع میں مسخراپن کرنے سے باز نہ رہے، اس کو فرمایا کہ اللہ نے تمہاری یہ باتیں سن لیں۔ اس پر جو کاروائی ہوگی اس کے منتظر رہو۔ 2  یعنی عام ضابطہ کے موافق یہ ملعون اور ناپاک اقوال تمہارے دفتر سیئات میں درج کرائے دیتے ہیں۔ جہاں تمہاری قوم کے دوسرے ملعون اور ناپاک افعال درج ہیں۔ مثلا معصوم نبیوں کا ناحق خون بہانا کیونکہ جس طرح یہ نالائق جملہ ایک نمونہ ہے تمہاری خدا شناسی کا، وہ نالائق کام نمونہ ہے تمہاری تعظیم انبیاء کا، جب یہ پوری مسل پیش ہوگی اس وقت کہا جائیگا کہ لو اپنی شرارتوں کا مزہ چکھو۔ اور جس طرح تم نے طعن و تمسخر سے اولیاء اللہ کے دل جلائے تھے، اب عذاب الٰہی کی بھٹی میں جلتے رہو۔
Top