Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 27
تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ١٘ وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ١٘ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
تُوْلِجُ : تو داخل کرتا ہے الَّيْلَ : رات فِي النَّهَارِ : دن میں وَتُوْلِجُ : اور داخل کرتا ہے تو النَّهَارَ : دن فِي الَّيْلِ : رات میں وَتُخْرِجُ : اور تو نکالتا ہے الْحَيَّ : جاندار مِنَ : سے الْمَيِّتِ : بےجان وَتُخْرِجُ : اور تو نکالتا ہے الْمَيِّتَ : بےجان مِنَ : سے الْحَيِّ : جاندار وَتَرْزُقُ : اور تو رزق دیتا ہے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
تو داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرے دن کو رات میں5 اور تو نکالے زندہ مردہ سے اور نکالے مردہ زندہ سے6  اور تو رزق دے جس کو چاہے بیشمار7
5  یعنی کبھی رات کو گھٹا کر دن کو بڑھا دیتا ہے، کبھی اس کا عکس کرتا ہے۔ مثلا ایک موسم میں 14 گھنٹہ کی رات اور دس گھنٹہ کا دن ہے۔ چند ماہ بعد رات کے چار گھنٹہ کاٹ کر دن میں داخل کردیئے۔ اب رات دس گھنٹہ کی رہ گئی اور دن 14 گھنٹہ کا ہوگیا۔ یہ سب الٹ پھیر تیرے ہاتھ میں ہیں۔ کیونکہ شمس و قمر وغیرہ تمام سیارات بدون تیرے ارادہ کے ذرا حرکت نہیں کرسکتے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی رات۔  7 یعنی بیضہ کو مرغی سے، مرغی کو بیضہ سے آدمی کو نطفہ سے نطفہ کو آدمی سے، جاہل کو عالم سے، عالم کو جاہل سے، کامل کو ناقص سے، ناقص کو کامل سے نکالنا تیری ہی قدرت کا کام ہے۔ 8 حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " یہود جانتے تھے کہ پہلے جو بزرگی ہم میں تھی وہ ہی ہمیشہ رہے گی۔ اللہ کی قدرت سے غافل ہیں جس کو چاہے عزیز کرے اور سلطنت دے اور جس سے چاہے چھین لے اور ذلیل کر دے۔ اور جاہلوں میں کامل پیدا کرے (جیسے عرب کے امیوں میں سے کئے) اور کاملوں میں سے جاہل (جیسے بنی اسرائیل میں ہوا) اور جس کو چاہے (حِسّی و معنوی) رزق بےحساب دیوے۔
Top