Tafseer-e-Usmani - An-Nisaa : 118
لَّعَنَهُ اللّٰهُ١ۘ وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًاۙ
لَّعَنَهُ اللّٰهُ : اللہ نے اس پر لعنت کی وَقَالَ : اور اس نے کہا لَاَتَّخِذَنَّ : میں ضرور لوں گا مِنْ : سے عِبَادِكَ : تیرے بندے نَصِيْبًا : حصہ مَّفْرُوْضًا : مقررہ
جس پر لعنت کی اللہ نے4 اور کہا شیطان نے کہ میں البتہ لونگا تیرے بندوں سے حصہ مقررہ5
4  یعنی ان مشرکوں نے اللہ کے سوا جو اپنا معبود بنایا تو ان بتوں کو جن کو عورتوں کے نام سے نامزد کر رکھا ہے جیسے عزیٰ اور منات اور نائلہ وغیرہ اور حقیقۃ الامر دیکھئے تو یہ مشرکین شیطان سرکش ملعون الٰہی کی عبادت کرتے ہیں اسی نے تو بہکا کر ایسا کرایا اور بت پرستی کرنے میں اس کی اطاعت اور اس کی عین خوشی ہے۔ اس سے مشرکین کی پرلے سرے کی ضلالت اور جہالت ظاہر فرمانی مقصود ہے۔ دیکھئے اول تو اللہ کے سوا کسی کو معبود بنانا اس سے بڑھ کر ضلالت کیا ہوسکتی ہے پھر بنایا تو کس کو پتھروں کو جن میں کسی قسم کی حس و حرکت بھی نہیں اور عورتوں کے نام سے موسوم ہیں اور کس کے بتلانے سے شیطان مردود و ملعون خداوندی کے بہکانے سے۔ کیا اس ضلالت اور جہالت کی نظیر مل سکتی ہے اور کوئی احمق سے احمق بھی اس کو قبول کرسکتا ہے۔ 5  یعنی جب شیطان سجدہ نہ کرنے پر ملعون اور مردود کیا گیا تو اس نے تو اسی وقت کہا تھا کہ میں تو غارت ہو ہی چکا مگر میں بھی تیرے بندوں اور اولاد آدم میں سے اپنے لئے ایک مقدار معلوم اور بڑا حصہ لوں گا یعنی ان کو گمراہ کر کے اپنے ساتھ جہنم میں لے جاؤنگا جیسا کہ سورة حجر اور بنی اسرائیل وغیرہ میں مذکور ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ متمرد اور ملعون ہونے کے علاوہ شیطان تو جملہ بنی آدم کا اول روز سے سخت دشمن اور بدخواہ ہے اور اس دشمنی کو صاف ظاہر کرچکا ہے تو اب یہ احتمال بھی نہ رہا کہ گو شیطان ہر طرح سے خبیث و گمراہ ہے مگر شاید کسی کو خیر خواہانہ کوئی نفع کی بات بتلا دے بلکہ یہ معلوم ہوگیا کہ وہ دشمن ازلی تو بنی آدم کو جو کچھ بتلائے گا ان کی گمراہی اور بربادی ہی کی بات بتلائے گا پھر ایسے گمراہ اور بدخواہ کی اطاعت کرنی کس قدر جہالت اور نادانی ہے۔ حصہ مقرر لینے کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ تیرے بندے اپنے مال میں میرا حصہ ٹھہرائیں گے جیسا کہ لوگ بت یا جن وغیرہ غیر اللہ کی نذر اور نیاز کرتے ہیں۔
Top