Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 115
قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّیْۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ اِنِّىْ : بیشک میں مُنَزِّلُهَا : وہ اتاروں گا عَلَيْكُمْ : تم پر فَمَنْ : پھر جو يَّكْفُرْ : ناشکری کریگا بَعْدُ : بعد مِنْكُمْ : تم سے فَاِنِّىْٓ : تو میں اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا : اسے عذاب دوں گا ایسا عذاب لَّآ : نہ اُعَذِّبُهٗٓ : عذاب دوں گا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
کہا اللہ نے میں بیشک اتاروں گا وہ خوان تم پر پھر جو کوئی تم میں ناشکری کرے گا اس کے بعد تو میں اس کو وہ عذاب دوں گا جو کسی کو نہ دوں گا جہان میں4
4 جب نعمت غیر معمولی اور نرالی ہوگی تو اس کی شکر گزاری کی تاکید بھی معمول سے بہت بڑھ کر ہونی چاہئے۔ اور ناشکری پر عذاب بھی غیر معمولی اور نرالا آئے گا۔ موضح القرآن میں ہے " بعضے کہتے ہیں وہ خوان اترا چالیس روز تک پھر بعضوں نے ناشکری کی۔ یعنی حکم ہوا تھا کہ فقیر اور مریض کھاویں۔ محظوظ اور چنگے بھی لگے کھانے۔ پھر قریب اسی آدمی کے سور اور بندر ہوگئے۔ یہ عذاب پہلے یہود میں ہوا تھا۔ پیچھے کسی کو نہیں ہوا۔ اور بعضے کہتے ہیں کہ نہیں اترا۔ یہ تہدید سن کر مانگنے والے ڈر گئے، نہ مانگا لیکن پیغمبر کی دعا عبث نہیں اور اس کلام میں نقل کرنا بےحکمت نہیں۔ شاید اس دعا کا اثر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں آسودگی مال ہمیشہ رہی اور جو کوئی ان میں ناشکری کرے یعنی دل کے اطمینان سے عبادت میں نہ لگے بلکہ گناہ میں خرچ کرے تو شاید آخرت میں سب سے زیادہ عذاب پاوے اس میں مسلمان کو عبرت ہے کہ اپنا مدعا " خرق عادت " کی راہ سے نہ چاہے کہ پھر اس کی شکر گزاری بہت مشکل ہے۔ اسباب ظاہری پر قناعت کرے تو بہتر ہے۔ اس قصہ میں بھی ثابت ہوا کہ حق تعالیٰ کے آگے حمایت پیش نہیں جاتی۔
Top