Tafseer-e-Usmani - Al-Hajj : 4
اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُرِيْدُ : چاہتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَنْ يُّوْقِعَ : کہ دالے وہ بَيْنَكُمُ : تمہارے درمیان الْعَدَاوَةَ : دشمنی وَالْبَغْضَآءَ : اور بیر فِي : میں۔ سے الْخَمْرِ : شراب وَالْمَيْسِرِ : اور جوا وَيَصُدَّكُمْ : اور تمہیں روکے عَنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کی یاد وَ : اور عَنِ الصَّلٰوةِ : نماز سے فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ : تم مُّنْتَهُوْنَ : باز آؤگے
شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ وہ ڈال دے تمہارے درمیان عداوت اور بغض شراب (خانہ خراب) اور جوئے کے ذریعے اور وہ تمہیں روک دے اللہ کے ذکر (اور اس کی یاد دلشاد) اور نماز سے، سو (اب بتلاؤ کہ یہ سب کچھ سننے کے بعد) کیا تم باز آتے ہو (کہ نہیں ؟ )4
228 شراب اور جوا بغض و عداوت کا ذریعہ ۔ والعیاذ باللہ : کہ شراب سے جب آدمی کی عقل زائل ہوجاتی ہے تو وہ بےہودہ گوئی کرتا ہے جس سے بات مار پیٹ اور قتل و قتال تک جا پہنچتی ہے۔ اور جوئے میں بازی ہارنے والا شخص جب اپنا مال اپنے حریف کے پاس دیکھتا ہے تو خواہ مخواہ اس کے دل میں حسد، بغض اور جلن کے احساسات جنم لیتے ہیں جس سے پھر آگے طرح طرح کے فتنے اور فساد ابھرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور بعض و عداوت اور نفرت و بغاوت کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ اور ہر ایک اس کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کس طرح انتقام لے اور اپنے جوش عداوت کو ٹھنڈا کرے۔ اور اس سے دنگا و فساد، بےعزتی و خرابی اور لڑائی جھگڑے کی طرح طرح کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور افراد و اَشخاص کی یہ لڑائی اور نفرت بعض اوقات قوموں اور قبیلوں کے درمیان جنگ بن جاتی ہے اور انتقام در انتقام کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اور اس کی ہلاکت خیزیوں اور تباہ کاریوں کا ایک تباہ کن سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 229 شراب اور جوا وغیرہ یاد خداوندی سے محرومی کا باعث۔ والعیاذ باللہ : جو کہ ایک بڑا ہی ہولناک خسارہ اور نقصان ہے کہ اللہ کا ذکر اور اس کی یاد دلشاد تو دلوں کی زندگی اور ان کی تقویت و تازگی کا ذریعہ ہے۔ تو اس سے محرومی تو گویا اپنی زندگی ہی سے محرومی ہے جو کہ خساروں کا خسارہ اور ہلاکتوں کی ہلاکت ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کی رو سے انسان کی زندگی اور اس کی عزت و عظمت اور رفعت و سربلندی ذکر الٰہی اور یاد خداوندی ہی کے ساتھ وابستہ ہے۔ سو یاد الٰہی سے غفلت و محرومی اپنے مقصد حیات سے غفلت اور اپنی قدر و قیمت سے محرومی ہے۔ اور خدا فراموشی درحقیقت خود فراموشی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ { نَسُوا اللّٰہَ فَانْسٰٰہُمْ اَنْفُسَہُمْ اُوْلئکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ } - 230 شراب اور جوا نماز سے محرومی کا باعث۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ شیطان چاہتا ہے کہ تم لوگوں کو ان چیزوں کے ذریعے نماز سے روک دے جو کہ تمہارے دین کا بنیادی ستون ہے اور اس کو ضائع کرنا پورے دین کو ضائع کرنا ہے۔ اور دین کا ضیاع دراصل دنیا وآخرت دونوں کا ضیاع ہے۔ تو پھر اس سے بڑھ کر نقصان اور ضیاع اور کیا ہوسکتا ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ذکر اللہ کے بعد صلوۃ یعنی نماز کا ذکر تخصیص بعد التعمیم کے قبیل سے ہے۔ کیونکہ نماز ذکر اور یاد خداوندی کا سب سے بڑا مظہر اور اہم ذریعہ و ثبوت ہے کہ اس کے ذریعے انسان اپنے ظاہر وباطن ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں مشغول ہوتا ہے۔ اور اللہ پاک کی یاد دلشاد ایسی عظیم الشان نعمت ہے جو انسان کو اصل حقائق سے غافل نہیں ہونے دیتی۔ جس کا نتیجہ اور فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کبھی گمراہ نہیں ہوتا۔ جب کبھی اس سے کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو اللہ پاک کی یاد اس کو سنبھال لیتی ہے اور پھر سیدھی راہ پر ڈال دیتی ہے۔ اس لئے شیطان اس کو اس دولت سے محروم کرنا چاہتا ہے کہ اس سے محرومی کے بعد وہ ہلاکت و تباہی کے دائمی کھڈے میں جا گرتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 231 محرمات سے بچنے کی پر زور ترغیب وتحریض : سو تحضیض و ترغیب کے طور پر استفہامیہ انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم لوگ باز آتے ہو ؟ یعنی کو باز آنا چاہیے۔ سو اس ارشاد سے شراب خانہ خراب جیسی محرمات سے بچنے کی پرزور ترغیب وتحریض فرمائی گئی ہے کہ آیت کے آخر میں استفہام کے طور پر فرمایا گیا " تو کیا تم لوگ باز آتے ہو ؟ "۔ یعنی یہ سب کچھ سننے اور جاننے کے بعد تم لوگوں کو ضرور باز آنا چاہیئے اور ان محرمات سے پوری طرح رک جانا چاہیئے۔ حضرات اہل علم کا کہنا ہے کہ اس طرح استفہام والا یہ اسلوب صریح نہی سے کہیں بڑھ کر موثر اور بلیغ ہوتا ہے۔ اسی لئے حضرت عمر۔ ؓ ۔ نے اس پر فرمایا تھا ۔ " اِنْتَہَیْنَا رَبَّنَا اِنْتَہَیْنَا " ۔ " ہم باز آگئے اے ہمارے رب ہم باز آگئے "۔ یعنی یہ اسلوب بیان انتہائی بلیغ اور نہایت موثر اسلوب و انداز بیان ہے۔ سو اس اسلوب بیان میں امر کے ساتھ زجرو تنبیہ، موعظت و تاکید اور اتمام حجت کا معنیٰ و مفہوم بھی پایا جاتا ہے ۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top