Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 152
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ ذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّخَذُوا : انہوں نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا سَيَنَالُهُمْ : عنقریب انہیں پہنچے گا غَضَبٌ : غضب مِّنْ رَّبِّهِمْ : ان کے رب کا وَذِلَّةٌ : اور ذلت فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم سزا دیتے ہیں الْمُفْتَرِيْنَ : بہتان باندھنے والے
(خدا نے فرمایا کہ) جن لوگوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا تھا ان پر پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور دنیا کی زندگی میں ذلت (نصیب ہوگی) اور ہم افتراء پردازوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
(152 ۔ 153) ۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے ان بنی اسرائیل کا حال بیان فرمایا ہے جنہوں نے بچھڑا بنا کر اس کو پوجا تھا کہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوا وہ یہ کہ ان لوگوں نے آپس میں ایک کو ایک نے قتل کیا اور دنیا میں بہت ذلیل ہوئے ملک سے نکالے گئے پھر اللہ پاک نے فرمایا جس طرح ان لوگوں پر غضب نازل ہوا اور ذلت نصیب ہوئی اسی طرح اور جھٹلانے والوں کی بھی یہی حال ہم کرتے ہیں۔ ابن عیینہ نے کہا کہ ہر ایک بدعت نکالنے والے کی یہی سزا قیامت تک ہے الفتراء دروغ بندی کو کہتے ہیں تو جو شخص اللہ پر جھوٹ باندھے گا اس پر اللہ کا غضب نازل ہوگا اس کو ذلت نصیب ہوگی خواہ وہ ویسی نہ ہو جیسا بچھڑا پوجنے والوں کی ہوئی اس کے بعد اللہ پاک نے یہ بھی فرما دیا کہ جن لوگوں نے خواہ کسی قسم کا گناہ کیا ہو چھوٹا بڑا یہاں تک کہ شرک اور کفر بھی اگر ایسے لوگوں نے گناہ کے بعد توبہ کی تو اللہ پاک بڑا مہربان اور بخشنے والا ہے اس کی توبہ قبول کرلے گا یہ آیت بہت بڑی بشارت ہے اس بات کی کہ انسان چاہے جس قسم کا گناہ کر کے تو بہ کرے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے وہ توبہ قبول کرلے گا اور سارے گناہ بخش دیگا مسند امام احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابوسعید خدری ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں شیطان نے لوگوں کے بہکانے اور طرح طرح کے گناہ ان سے کرانے پر اللہ تعالیٰ کے روبرو قسم کھائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے جاہ و جلال کی قسم کھا کر اس ملعون کو یہ جواب دیا ہے کہ گناہ کر کے جو کوئی توبہ استغفار کریگا میں بھی اس کے گناہوں کے معاف کرنے میں کبھی دریغ نہ کروں گا یہ حدیث آیت کی بشارت کی گویا تفسیر ہے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
Top