Tafseer-e-Usmani - Al-Anfaal : 32
وَ اِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
وَاِذْ : اور جب قَالُوا : وہ کہنے لگے اللّٰهُمَّ : اے اللہ اِنْ : اگر كَانَ : ہے هٰذَا : یہ هُوَ : یہ الْحَقَّ : حق مِنْ : سے عِنْدِكَ : تیری طرف فَاَمْطِرْ : تو برسا عَلَيْنَا : ہم پر حِجَارَةً : پتھر سے مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان اَوِ : یا ائْتِنَا : لے آ ہم پر بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
اور جب وہ کہنے لگے کہ یا اللہ اگر یہی دین حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر برسادے پتھر آسمان سے یا لا ہم پر کوئی عذاب دردناک4
4 اس آیت میں مشرکین مکہ کے انتہائی جہل اور شقاوت وعناد کا اظہار ہے یعنی وہ کہتے تھے کہ خداوندا اگر واقعی یہ ہی دین حق ہے جس کی ہم اتنی دیر اور اس قدر شدومد سے تکذیب کر رہے ہیں تو پھر دیر کیوں ہے ؟ گزشتہ اقوام کی طرح ہم پر بھی پتھروں کا مینہ کیوں نہیں برسا دیا جاتا۔ یا اسی طرح کے کسی دوسرے عذاب میں مبتلا کر کے ہمارا استیصال کیوں نہیں کردیا جاتا ؟ کہتے ہیں کہ یہ دعاء ابو جہل نے مکہ سے نکلتے وقت کعبہ کے سامنے کی۔ آخر جو کچھ مانگا تھا اس کا ایک نمونہ بدر میں دیکھ لیا۔ وہ خود مع 29 سرداروں کے کمزور اور بےسروسامان مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارا گیا۔ ستر سردار اسیری کی ذلت میں گرفتار ہوئے۔ اس طرح خدا نے ان کی جڑ کاٹ دی۔ بیشک قوم لوط کی طرح ان پر آسمان سے پتھر نہیں برسے لیکن ایک مٹھی سنگریزے جو خدا تعالیٰ نے محمد ﷺ کے ہاتھ سے پھینکے تھے وہ آسمانی سنگباری کا چھوٹا سا نمونہ تھا۔ (فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ ۠ وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى) 8 ۔ الانفال :17)
Top