Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 106
وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور مُرْجَوْنَ : وہ موقوف رکھے گئے لِاَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم پر اِمَّا : خواہ يُعَذِّبُھُمْ : وہ انہیں عذاب دے وَاِمَّا : اور خواہ يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ : توبہ قبول کرلے ان کی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور بعضے اور لوگ ہیں کہ ان کا کام ڈھیل میں ہے حکم پر اللہ کے یا وہ ان کو عذاب دے اور یا ان کو معاف کرے اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے5
5 اہل مدینہ میں سے یہاں ایک چھوٹی سی جماعت کا ذکر فرمایا ہے اصل یہ ہے کہ متخلفین عن تبوک (یعنی تبوک میں نہ شریک ہونے والے) تین قسم کے تھے۔ ایک منافقین جو ازراہ شک و نفاق علیحدہ رہے۔ دوسرے بعض مومنین جو محض سستی اور تن آسانی کی بدولت شریک جہاد نہ ہوئے۔ پھر ان میں دو قسمیں تھیں۔ اکثر وہ تھے جنہوں نے واپسی کی اطلاع پا کر اپنے کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا ان کا ذکر پچھلی آیات میں گزر چکا۔ صرف تین شخصوں کی جماعت وہ تھی جنہوں نے نہ اپنے کو ستونوں سے بندھوایا نہ کوئی عذر تراشا۔ بس جو واقعہ تھا اور جو قصور ہوا تھا صاف صاف بلا کم وکاست آنحضرت ﷺ کے سامنے عرض کردیا۔ ان کے بارے میں آیت (وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ ) 9 ۔ التوبہ :109) نازل ہوئی۔ یعنی ان کا معاملہ ابھی ڈھیل میں ہے۔ چند روز خدا کے حکم کا انتظار کرو۔ خواہ ان کو سزا دے یا معاف کرے۔ جو اس کے علم و حکمت کا اقتضاء ہوگا کیا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے تانزول حکم الٰہی ادب دینے کے لیے مسلمانوں کے تعلقات ان تینوں سے منقطع کردیے۔ پچاس دن تک یہ ہی معاملہ رہا۔ پھر معافی ہوئی۔ ان واقعات کی اور تینوں کے ناموں کی تفصیل اگلے رکوع کے خاتمہ پر بیان ہوگی۔
Top