Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
اے ایمان والو لڑتے جاؤ اپنے نزدیک کے کافروں سے6  اور چاہیے کہ ان پر معلوم ہو تمہارے اندرسختی7 اور جانو کہ اللہ ساتھ ہے ڈر والوں کے8
6  جہاد فرض کفایہ ہے جو ترتیب طبعی کے موافق اول ان کفار سے ہونا چاہیے جو مسلمانوں سے قریب تر ہوں بعدہ، ان کے قریب رہنے والوں سے۔ اسی طرح درجہ بدرجہ حلقہ جہاد کو وسیع کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے جہاد اسی ترتیب سے ہوئے " دفاعی جہاد " میں بھی فقہاء نے یہ ہی ترتیب رکھی ہے کہ جس اسلامی ملک پر کفار حملہ آور ہوں، وہاں کے مسلمانوں پر دفاع واجب ہے اگر وہ کافی نہ ہوں یا سستی کریں تو ان کے متصل رہنے والوں پر وہ کافی نہ ہوں تو پھر جو ان سے متصل ہیں۔ اسی طرح اگر ضرورت پڑے تو درجہ بدرجہ مشرق سے مغرب تک جہاد فرض ہوتا چلا جائے گا۔ 7 مومن کی شان یہ ہے کہ اپنے بھائی کے حق میں نرم اور دشمنان خدا و رسول کے معاملہ میں سخت و شدید ہو۔ تاکہ اس کی نرمی اور ڈھیلا پن دیکھ کر دشمن جری نہ ہوجائے۔ (اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْن) 5 ۔ المائدہ :54) ( وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ) 48 ۔ الفتح :29) (جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ) 9 ۔ التوبہ :73) وَفِی الحدیث انہ ﷺ قال انا الضحوک القتال۔ " 8 یعنی خدا سے ڈرنے والے کو کسی کافر قوم سے ڈرنے اور دبنے کی کوئی وجہ نہیں۔ جب تک اور جس قدر مسلمان خدا سے ڈرتے رہے اسی وقت تک اور اسی قدر ان کو کفار پر غلبہ حاصل ہوتا رہا۔ حق تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنا ڈر پیدا کر دے۔
Top