Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 2
فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْكٰفِرِیْنَ
فَسِيْحُوْا : پس چل پھر لو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَرْبَعَةَ : چار اَشْهُرٍ : مہینے وَّاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم غَيْرُ : نہیں مُعْجِزِي اللّٰهِ : اللہ کو عاجز کرنے والے وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ مُخْزِي : رسوا کرنے والا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
سو پھر لو اس ملک میں چار مہینے اور جان لو کہ تم نہ تھکا سکو گے اللہ کو اور یہ کہ اللہ رسوا کرنے والا ہے کافروں کو1
1 6 ھجری میں بمقام " حدیبیہ " جب نبی کریم ﷺ اور قریش کے درمیان معاہدہ صلح ہوچکا تو بنی خزاعہ مسلمانوں کے اور بنی بکر قریش کے حلیف بنے۔ بنی بکر نے معاہدہ کی پروا نہ کر کے خزاعہ پر حملہ کردیا اور قریش نے اسلحہ وغیرہ سے ظالم حملہ آوروں کی مدد کی۔ اس طرح قریش اور ان کے حلیف دونوں معاہدہ حدیبیہ پر قائم نہ رہے جس کے جواب میں 8 ہجری میں نبی کریم ﷺ نے اچانک حملہ کر کے مکہ معظمہ بڑی آسانی سے فتح کرلیا۔ ان قبائل کے سوا دوسرے قبائل عرب سے مسلمانوں کا میعادی یا غیر میعادی معاہدہ تھا۔ جن میں سے بعض اپنے معاہدہ پر قائم رہے۔ بہت سے قبائل وہ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ اس سورت کی مختلف آیات قبائل کے متعلق نازل ہوئیں ہیں۔ شروع کی آیات میں غالباً ان مشرکین کا ذکر ہے جن سے معاہدہ تھا مگر میعادی نہ تھا۔ ان کو اطلاع کردی گئی کہ ہم آئندہ معاہدہ رکھنا نہیں چاہتے۔ چار ماہ کی مہلت تم کو دی جاتی ہے کہ اس مدت کے اندر اسلامی برادری میں شامل ہوجاؤ یا وطن چھوڑ کر مرکز ایمان و توحید کو اپنے وجود سے خالی کردو اور یا جنگی مقابلہ کے لیے تیار ہوجاؤ لیکن یہ خوب سمجھ لینا کہ تم خدا کی مشیت کو روک نہیں سکتے۔ اگر اسلام نہ لائے وہ تم کو دنیا و آخرت میں رسوا کرنے والا ہے۔ تم اپنی تدبیروں اور حیلہ بازیوں سے اسے عاجز نہ کرسکو گے۔ باقی جن قبائل سے کوئی معاہدہ ہی نہ تھا، ممکن ہے انہیں بھی چار ماہ کی مہلت دی گئی ہو۔ یہ اور اس کے بعد کی آیتوں کا اعلان عام 9 ہجری میں حج کے موقع پر تمام قبائل عرب کے سامنے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کیا۔
Top