Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 23
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ١٘ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ١٘ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ١ۙ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ
حُرِّمَتْ : حرام کی گئیں عَلَيْكُمْ : تم پر اُمَّھٰتُكُمْ : تمہاری مائیں وَبَنٰتُكُمْ : اور تمہاری بیٹیاں وَاَخَوٰتُكُمْ : اور تمہاری بہنیں وَعَمّٰتُكُمْ : اور تمہاری پھوپھیاں وَخٰلٰتُكُمْ : اور تمہاری خالائیں وَبَنٰتُ الْاَخِ : اور بھتیجیاں وَبَنٰتُ : بیٹیاں الْاُخْتِ : بہن وَاُمَّھٰتُكُمُ : اور تمہاری مائیں الّٰتِيْٓ : وہ جنہوں نے اَرْضَعْنَكُمْ : تمہیں دودھ پلایا وَاَخَوٰتُكُمْ : اور تمہاری بہنیں مِّنَ : سے الرَّضَاعَةِ : دودھ شریک وَ : اور اُمَّھٰتُ نِسَآئِكُمْ : تمہاری عورتوں کی مائیں وَرَبَآئِبُكُمُ : اور تمہاری بیٹیاں الّٰتِيْ : جو کہ فِيْ حُجُوْرِكُمْ : تمہاری پرورش میں مِّنْ : سے نِّسَآئِكُمُ : تمہاری بیبیاں الّٰتِيْ : جن سے دَخَلْتُمْ : تم نے صحبت کی بِهِنَّ : ان سے فَاِنْ : پس اگر لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ : تم نے نہیں کی صحبت بِهِنَّ : ان سے فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر وَحَلَآئِلُ : اور بیویاں اَبْنَآئِكُمُ : تمہارے بیٹے الَّذِيْنَ : جو مِنْ : سے اَصْلَابِكُمْ : تمہاری پشت وَاَنْ : اور یہ کہ تَجْمَعُوْا : تم جمع کرو بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ : دو بہنوں کو اِلَّا مَا : مگر جو قَدْ سَلَفَ : پہلے گزر چکا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
تم پر حرام ٹھہرا دی گئی ہیں تمہاری مائیں ، تمہاری بیٹیاں ، تمہاری بہنیں ، تمہاری پھوپھیاں ، تمہاری خالائیں ، تمہاری بھتیجیاں ، تمہاری بھانجیاں ، تمہاری دودھ پلانے والی مائیں ، تمہاری رضاعی بہنیں ، تمہاری بیویوں کی مائیں ، تمہاری بیویوں کی اولاد جو تمہاری گودیوں میں ہے (اگرچہ وہ تمہاری اپنی اولاد نہیں ہے) البتہ یہ ضروری ہے کہ (تمہارا) زناشوئی کا تعلق بھی ہوگیا ہو ، اگر ایسا تعلق نہ ہوا ہو تو پھر ان کی لڑکیوں سے نکاح کرلینے میں کوئی پکڑ نہیں ، تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں نیز یہ بات بھی حرام کردی گئی ہے کہ دو بہنوں کو جمع کرو ، پہلے جو کچھ ہوچکا اللہ بخش دینے والا اور رحمت رکھنے والا ہے
حرام رشتوں کی پوری وضاحت فرما دی تاکہ کوئی بات مبہم نہ رہ جائے : 53: امہات ام کی جمع ہے اور اس میں قریب ترین وہ والدہ ماجدہ ہے جس کے بطن سے انسان پیدا ہوتا ہے یعنی جس بطن سے میں پیدا ہوا وہ میری ماں اور جس بطن سے آپ پیدا ہوئے وہ آپ کی ماں ، یہ حقیقی ماں کہلاتی ہے۔ لیکن جس نے کسی جننے والی کو جنا ہو وہ بھی ماں ہی کے حکم میں داخل ہے۔ جیسے والد کی ماں دادی اور والدہ کی ماں نانی۔ اسی طرح جب اوپر کو چلے جائیں تو ساری ماں ہی کے حکم میں داخل ہیں اور ان سب سے نکاح حرام ہے۔ پھر ان حرام رشتوں کی تفصیل بھی بیان کردی گئی ہے جن سے نکاح حرام ہے۔ جن میں سے بعض محرمات تو وہ ہیں جو کسی حال میں بھی حلال نہیں ہوتیں جنہیں محرات ابدیہ کہا جاتا ہے اور بعض وہ ہیں جن کے ساتھ ایک وقت تک نکاح درست نہیں لیکن پھر ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ ان سے نکاح جائز ہوجاتا ہے ان آیات میں جو رشتے حرام قرار دیے گئے ان میں سے شروع کی تین اقسام محرمات سبیہ ، محرمات رضاعیہ اور محرمات بالمصاہرت تو محرمات ابدیہ میں داخل ہیں اور آخری ایک قسم منکوحہ عورتوں کی ہے وہ اس وقت تک تو حرام ہیں جب تک وہ کسی دوسرے کے نکاح میں ہیں لیکن جب دوسرے کے نکاح میں نہ رہیں تو ان سے نکاح کی ممانعت بھی اٹھ گئی۔ اب ان کی تفصیل الگ الگ کر کے بیان کی جاتی ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا : ” تم پر حرام ٹھہرا دی گئی ہیں تمہاری مائیں۔ “ یعنی والدہ سے نکاح حرام ہے اور لفظ اُمَّھَاتُکُمْ کے عموم میں دادیاں اور نانیں سب داخل ہیں۔ یعنی جنہوں نے ان کے جننے والوں کو جنا ہے وہ سب اوپر تک حرام کردی گئی ہیں۔ ” تمہاری بیٹیاں “ یعنی اپنی صلبی بیٹی سے نکاح کرنا حرام ہے اور لفظ ” وَبَنَاتُکُمْ “ کے عموم میں بیٹی کی بیٹی نیچے تک اور بیٹے کی بیٹی تک داخل ہوگئیں گویا لڑکی اور لڑکی کی لڑکی اور اس طرح بیٹے کی لڑکی اور بیٹے کی لڑکی کی لڑکی سے بھی۔ وقس علی ہذا۔ ” تمہاری بہنیں “ یعنی اپنی حقیقی بہن سے نکاح حرام ہے اور لفظ ” اَخْوٰتُکُمْ “ کے عموم میں باپ شریک بہنیں اور ماں شریک بہنیں داخل ہوگئیں یعنی علاقی اور اخیافی بہنیں سب حرام ہیں۔ ” تمہاری پھوپھیاں “ یعنی حقیقی باپ کی حقیقی بہن سے نکاح حرام ہے اور اسی طرح علاقی پھوپھی اور اخیافی پھوپھی بھی اس حکم میں داخل ہے اس لیے ان سے بھی نکاح حرام ہے۔ ” تمہاری خالائیں “ یعنی حقیقی والدہ کی بہن سے نکاح حرام ہے خواہ والدہ کی حقیقی بہن ہو یا علاقی بہن ہو یا اخیافی بہن ہو سب اس حکم میں داخل ہیں اور سب سے نکاح حرام ہے۔ ” تمہاری بھتیجیاں “ یعنی حقیقی بھائی کی بیٹی سے بھی نکاح حرام ہے اور اس طرح علاقی بھائی کی بیٹی ہو یا اخیافی بھائی کی بیٹی ہو ان سے نکاح حرام ہے۔ ” تمہاری بھانجیاں “ یعنی تمہاری حقیقی بہن کی بیٹی سے بھی نکاح حرام ہے اور اس طرح علاقی بہن کی بیٹی سے بھی اور اخیافی بہن کی بیٹی سے بھی نکاح حرام ہے۔ ” تمہاری دودھ پلانے والی مائیں “ جن عورتوں کا دودھ پیا ہے اگرچہ وہ حقیقی مائیں نہ ہوں وہ بھی حکم نکاح کے بارے میں والدہ کے حکم میں ہیں اور ان سے بھی نکاح حرام ہے۔ دودھ خواہ تھوڑا پیا ہو یا زیادہ۔ ایک مرتبہ پیا ہو یا متعدد بار پیا ہو ہر صورت میں یہ حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔ اس حرمت کو اصطلاح میں حرمت رضاعت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہاں ! حرمت رضاعت اس عمر اور اس زمانہ میں دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے جو بچپن میں دودھ پینے کا زمانہ ہوتا ہے اس لیے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کا ارشاد ہے کہ انما الرضاعۃ من المجاعۃ یعنی رضاعت سے جو حرمت ثابت ہوگی وہ اس زمانہ میں دودھ پینے سے ہوگی جس زمانہ میں دودھ پینے سے ہی بچے کا نشو ونما ہوتا ہے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ مدت بعض کے نزدیک دو سال اور بعض کے نزدیک اڑھائی سال ہے۔ لیکن دو سال والی بات زیادہ صحیح ہے۔ ” تمہاری رضاعی بہنیں “ یعنی رضاعت کے رشتہ سے جو بہنیں ہوں ان سے بھی نکاح حرام ہے پھر تفصیل اس کی اس طرح ہے کہ جب لڑکی یا لڑکے نے ایام رضاعت میں کسی عورت کا دودھ پی لیا تو وہ عورت ان کی رضاعی اولاد بن گئی اور اس عورت کا شوہر ان کا رضاعی باپ بن گیا۔ پھر اس عورت کی نسبی اولاد اس کے بہن بھائی بن گئے اور اس رضاعی باپ کی ساری اولاد خواہ اس بیوی سے ہو جس کا انہوں نے دودھ پیا یا کسی دوسری بیوی سے ہو وہ رضاعی بہن بھائی ہوگئے اور اس طرح اس عورت کی بہنیں ان کی خالائیں بن گئیں اور رضاعی باپ کی بہنیں پھوپھیاں ہوگئیں اور اس رضاعی باپ کے بھائی چچا بن گئے اور ان سب میں باہ حرمت رضاعت ثابت ہوگئی۔ مختصر یہ کہ نسب کے لحاظ سے جن رشتوں کے ساتھ نکاح حرام تھا وہ سارے رشتے رضاعت کی وجہ سے اس طرح کے سارے رضاعی رشتے بھی حرام ٹھہر گئے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من الولادۃ (بخاری) اور اس طرح مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ ان اللہ حرم من الرضاعۃ ما حرم من النسب۔ (بحالہ مشکوٰۃ المصابیح ، ص : 273) دودھ عورت نے پلایا جس سے رضاعت قائم ہوگئی لیکن اس کے خاوند سے کیا تعلق ہوا ؟ اس طرح رضاعت کا معاملہ بہت لمبا اور دور تک پھیلا ہوا ہے اس لیے یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ رضاعت ثابت کرنے کے لیے دو دیندار مردوں کی گواہی یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہے صرف کسی عورت کے کہہ دینے سے کہ میں نے فلاں کو دودھ پلایا ہے۔ کافی نہیں ! ! احتیاط کا معاملہ دوسری چیز ہے۔ دوسری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کسی عورت کا دودھ پینے سے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ چونکہ اس عورت کا دودھ پیا ہے اس لیے اس عورت کے رشتوں سے رضاعت ثابت ہوگئی لیکن اس عورت کے خاوند اس کا کیا تعلق ہوا کہ اس کی طرف سے بھی جتنے رشتے تھے وہ حرام قرار پا گئے ؟ بات فی الواقع سمجھنے کی ہے اور اگر اس کی سمجھ میں آجائے تو بہت سے الجھے ہوئے مسائل خودبخود درست ہوجاتے ہیں۔ اس بات کی اصل یہ ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کا ارشاد ہے کہ ” لبن الفحل “ کہ دودھ مذکر کی طرف سے ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک مذکر و مونث کا ملاپ نہیں ہوتا بچہ ممکن نہیں اور بچہ کی افزائیش کے لیے دودھ کی غذا لازم تھی اس لیے قدرت نے مذکر کے ملاپ سے دونوں چیزوں کا بندوبست کردیا بچہ کا بھی اور بچہ کی غذا کا بھی اب اس غذا کو کوئی استعمال کرے یا نہ کرے بہرحال اتنی بات تو معلوم ہوگئی کہ دودھ کا تعلق بھی صرف مادہ سے نہیں بلکہ نر و مادہ دونوں سے ہے۔ اس لیے اگر مرد کے ہاں کسی طریقہ سے دودھ پیدا ہوجائے تو نر و مادہ کا الحاق اس میں بھی لازم و ضروری قرار پائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ دودھ غذائیت کا کام نہیں دے گا اور نہ اس سے رضاعت ثابت ہوگی۔ ” تمہاری بیویوں کی مائیں “ بھی شوہر پر حرام ہیں یعنی جن کو خوش دامن یا ساس کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے وہ بھی ابدی طور پر حرام ہوجاتی ہیں خواہ ان کی بیٹیاں زندہ ہوں یا وفات پا گئی ہوں یا ان کو طلاق دے دی گئی ہو ہر حال میں بیوی کی ماں ابدی طور پر حرام ہوگئی اور یہی بات رضاعت میں بھی ہے یعنی رضاعی ماں کی ماں ہو یا رضاعی ماں کی نانی یا دادی کا ایک ہی حکم ہے۔ پھر یہ بھی کہ نفس نکاح ہی سے بیوی کی ماں حرام ہوجاتی ہے اس سے خلوت صحیح ہوئی ہو یا ہوئی ہو اس جگہ اس تفصیل کی ضرورت نہیں بلکہ ماں کا رشتہ ہی اتنا نازک ہے کہ اس کا ذکر ہی حرمت کے لیے کافی ہے۔ ” تمہاری بیویوں کی اولاد جو تمہاری گودیوں میں ہوں “ یعنی جس عورت کے ساتھ نکاح کیا اور نکاح کے بعد خلوت صحیحہ میسر بھی ہوگئی یعنی ازدواجی جوڑ بھی جڑ گیا تو اس عورت کی لڑکی جو دوسرے شوہر سے ہے۔ اس طرح اس کی پوتی اور نواسی بھی حرام ہوگئیں ان سے نکاح کرنا جائز نہیں۔ لیکن اگر نکاح ہوا لیکن ازدواجی جوڑا نہیں جوڑا گیا تو وہ لڑکیاں جو اس کی دوسرے خاوند سے ہوں وہ حرام نہ ہوں گی۔ منکوحہ کی وہ لڑکی یا لڑکا جو دوسرے خاوند سے ہو وہ ربیبہ یا ربیب کہلاتا ہے۔ وہ گود میں بیٹھنے کے قابل ہو یا نہ ہو۔ پرورش اس کی اس نے کی ہو یا کسی دوسرے نے بیوی کی اولاد ہر حال میں حرام ہے۔ ” تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں “ یعنی حقیقی بیٹے کی بیوی حرام ہے اور بیٹے کے عموم میں پوتا اور نواسا بھی داخل ہیں لہٰذا ان کی بیویوں سے بھی نکاح جائز نہیں ہے اور اس طرح مِنْ اَصْلَابِکُمْ کی قید نے مبنی بیٹوں کو اس سے مستثنیٰ کردیا یعنی ایسے بیٹے جو کسی لحاظ سے بیٹے تو نہیں تھے لیکن صرف ان کو بیٹا بنا لیا گیا۔ اولاد نہ ہونے کی غرض سے یا پیار و محبت یا اس طرح کی کسی وجہ سے اس کو بیٹا بنا لیا حالانکہ اس کا حقیقی باپ کوئی دوسرا ہے خواہ وہ معلوم ہے یا معلوم نہیں ہے۔ اس لیے کہ متبنی بیٹے کے حکم میں نہیں ہے جیسے خود رسول اللہ ﷺ نے زید کو بیٹا بنا لیا لیکن نبوت کے بعد جب یہ حکم نازل ہوگیا تو آپ ﷺ نے زید کو زید بن الحارثہ کے نام سے بلانا شروع کردیا اور قرآن کریم نے اعلان کردیا محمد رسول اللہ ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ ” دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ “ گویا یہ حرمت وقتی ہے کہ جب تک ایک بہن نکاح میں ہے اس وقت تک اس کی دوسری بہن سے نکاح حرام ہے لیکن اس کی وفات کے بعد یا اس کو طلاق دے دینے کے بعد یہ حرمت ساقط ہوجائے گی اور اب بیوی کی بہن سے شادی کرنا جائز و درست ہوجائے گا۔ کیونکہ اس طرح دونوں بہنیں بیک وقت ایک آدمی کے نکاح میں نہیں ہوں گے بلکہ یکے بعد دیگرے ہوں گی تو اس کی ممانعت نہیں ہے۔ دو بہنیں بیک وقت نکاح میں اکٹھی نہیں ہو سکتیں یہ دونوں بہنیں حقیقی ہوں یا علاقائی ہوں یا اخیافی ہوں نیز جو یکے بعد دیگرے کی قید لگائی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کی عدت گزارنے کے بعد دوسری سے نکاح ہو سکتا ہے عدت کے اندر نہیں اور ظاہر ہے کہ یہ عدت طلاق ہی کی ہو سکتی ہے موت کی نہیں کیونکہ موت کے بعد کوئی دوسرا نکاح اس دنیا میں نہیں کرسکتا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ عدت عورت کے لیے ہوتی ہے مرد کے لیے نہیں۔ لہٰذا ایک بہن کی وفات ہوجائے جو کسی مرد کے نکاح میں تھی تو اس کی وفات کے بعد وہ اپنی بیوی کی دوسری بہن سے نکاح کرسکتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے ایک عورت کو طلا قدی ہو تو جب تک اس کی عدت پوری نہ ہو اس کی بہن سے نکاح نہیں کرسکتا۔ اس طرح پھوپھی ، بھتیجی ، خالہ ، بھانجی کو بھی ایک وقت میں نکاح میں نہیں رکھا جاسکتا اور اس کا اصول اس طرح سمجھ میں آنا آسان ہے کہ دو ایسی عورتیں جن میں سے اگر ایک مرد ہوتا تو ان کا آپس میں نکاح حرام تھا وہ دونوں بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں یعنی ایک وقت میں ایسی دو عورتوں سے نکاح حرام ہے اور یہ ایسا پکا اور پختہ اصول ہے کہ کسی سے مسئلہ پوچھنے کی ضرورت و حاجت باقی نہیں رہتی۔ اَلَّا مَا قَدْ سَلَفَ فرمایا : ہاں ! جو گزر گیا سو گزر گیا یعنی یہ حکم نازل ہونے سے پہلے فاپنے علاقائی رواج کی وجہ سے جو کچھ کوئی کر بیٹھا وہ معاف ہے۔ ہاں ! اس کے بعد اگر کسی کے ہاں دو بہنیں اکٹھی ہوں تو ایک کو رکھنا اور دوسری کو چھوڑ دینا ہے اس طرح اگر دو ایسی عورتیں بیک وقت کسی کے نکاح میں ہوں جن میں سے کسی ایک کو اگر مرد تصور کریں تو دونوں کا نکاح جائز نہ ہوگا ان میں سے ایک کو رکھ کر دوسری کو فارغ کرنا لازم ہوگیا۔ چناچہ اس حکم کے نزول کے بعد جہاں جہاں اس طرح کی غلطی موجود تھی وہ درست کردی گئی اور اس کی مثالیں احادیث و تاریخ میں عام ملتی ہیں۔ ” پہلے جو کچھ ہوچکا اللہ بخش دینے والا ، رحمت رکھنے والا ہے۔ “ یہ حکم نازل ہونے سے قبل جو کچھ ہوگیا وہ ناسمجھی اور رواج کی غلطی کی وجہ سے تھا اب زیادہ اس کا افسوس نہ کرو اللہ بخش دینے والا اور معاف کردینے والا ہے۔ جہالت کی وجہ سے جو ہوا اس پر گرفت نہیں ہوگی۔
Top