Aasan Quran - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم زمین میں سفر کرو اور تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ کافر لوگ تمہیں پریشان کریں گے، تو تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم نماز میں قصر کرلو۔ (63) یقینا کفر لوگ تمہارے کھلے دشمن ہیں۔
63: اللہ تعالیٰ نے سفر کی حالت میں ظہر، عصر اور عشاء کی نماز آدھی کردی ہے۔ اسے قصر کہا جاتا ہے۔ عام سفروں میں قصر ہر حالت میں واجب ہے، چاہے دشمن کا خوف ہو یا نہ ہو لیکن یہاں ایک خاص قسم کے قصر کا ذکر مقصود ہے جو دشمن کے مقابلے کے وقت ہی ہوسکتا ہے، اس میں یہ چھوٹ بھی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا لشکر دو حصوں میں تقسیم ہو کر ایک ہی امام کے پیچھے باری باری ایک ایک رکعت پڑھے، اور دوسری رکعت بعد میں تنہا پوری کرے جس کا طریقہ اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ خاص قسم کا قصر جسے صلاۃ الخوف کہتے ہیں دشمن کے مقابلے کی حالت ہی میں ہوسکتا ہے، اس لیے یہاں قصر کے ساتھ یہ شرط لگائی گئی ہے کہ اگر تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ کافر لوگ تمہیں پریشان کریں گے۔ (ابن جریر) آنحضرت ﷺ نے غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر صلاۃ الخوف پڑھی ہے۔ اس کا مفصل طریقہ احادیث اور فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔
Top