Aasan Quran - Al-Fath : 11
سَیَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَاۤ اَمْوَالُنَا وَ اَهْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا١ۚ یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِهِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا١ؕ بَلْ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
سَيَقُوْلُ : اب کہیں گے لَكَ : آپ سے الْمُخَلَّفُوْنَ : پیچھے رہ جانے والے مِنَ الْاَعْرَابِ : دیہاتیوں میں سے شَغَلَتْنَآ : ہمیں مشغول رکھا اَمْوَالُنَا : ہمارے مالوں وَاَهْلُوْنَا : اور ہمارے گھر والے فَاسْتَغْفِرْ : اور بخشش مانگئے لَنَا ۚ : ہمارے لئے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں بِاَلْسِنَتِهِمْ : اپنی زبانوں سے مَّا لَيْسَ : جو نہیں فِيْ قُلُوْبِهِمْ ۭ : ان کے دلوں میں قُلْ : فرمادیں فَمَنْ : تو کون يَّمْلِكُ : اختیار رکھتا ہے لَكُمْ : تمہارے لئے مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کے سامنے شَيْئًا : کسی چیز کا اِنْ اَرَادَ بِكُمْ : اگر وہ چاہے تمہیں ضَرًّا : کوئی نقصان اَوْ اَرَادَ بِكُمْ : یا چاہے تمہیں نَفْعًا ۭ : کوئی فائدہ بَلْ كَانَ اللّٰهُ : بلکہ ہے اللہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو خَبِيْرًا : خبردار
وہ دیہاتی جو (حدیبیہ کے سفر میں) پیچھے رہ گئے تھے، (7) اب وہ تم سے ضرور یہ کہیں گے کہ : ہمارے مال و دولت اور ہمارے اہل و عیال نے ہمیں مشغول کرلیا تھا، اس لیے ہمارے لیے مغفرت کی دعا کردیجیے۔ وہ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں۔ (ان سے) کہو کہ : اچھا تو اگر اللہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا فائدہ پہنچانا چاہے تو کون ہے جو اللہ کے سامنے تمہارے معاملے میں کچھ بھی کرنے کی طاقت رکھتا ہو ؟ (8) بلکہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
7: حدیبیہ کے سفر میں جب آنحضرت ﷺ عمرے کے ارادے سے روانہ ہوئے تو تمام مخلص صحابہ کرام تو خود ہی بڑے شوق کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوگئے تھے، لیکن چونکہ یہ اندیشہ شروع ہی سے تھا کہ شاید قریش کے کافر لوگ راستہ روکیں، اور لڑائی کی نوبت آجائے، اس لئے آپ نے ایک بڑی جمعیت کے ساتھ سفر کرنے کی غرض سے مدینہ منورہ کے آس پاس کے دیہات میں بھی یہ اعلان فرمادیا تھا کہ وہاں کے لوگ بھی ساتھ چلیں، ان میں سے جو حضرات مخلص مسلمان تھے، وہ تو آپ کے ساتھ آگئے، لیکن ان میں سے جو لوگ منافق تھے، انہوں نے یہ سوچا کہ جنگ کی صورت میں ہمیں لڑائی میں حصہ لینا پڑے گا، اس لئے مختلف بہانے کرکے رک گئے، اس آیت میں پیچھے رہنے والوں سے وہی منافق مراد ہیں، اور فرمایا جارہا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ مدینہ منورہ واپس پہنچیں گے تو یہ لوگ یہ بہانہ کریں گے کہ ہم اپنے گھر بار کی مصروفیت کی وجہ سے آپ کے ساتھ نہیں جاسکے تھے۔ 8: یعنی تم یہ سوچ کر اپنے گھروں میں رک گئے تھے کہ گھر میں رہنا فائدہ مند ہے، اور حضور اقدس ﷺ کے ساتھ جانے میں نقصان ہے، حالانکہ فائدہ اور نقصان تو تمام تر اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے، وہ نفع یا نقصان پہنچانے کا ارادہ فرمالے تو کسی کی مجال نہیں ہے کہ اسے روک سکے۔
Top