Aasan Quran - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
یقینا اللہ ان مومنوں سے بڑا خوش ہوا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے اور ان کے دلوں میں جو کچھ تھا وہ بھی اللہ کو معلوم تھا۔ (15) اس لیے اس نے ان پر سکینت اتار دی، اور ان کو انعام میں ایک قریبی فتح عطا فرما دی۔ (16)
15: یہ اسی بیعت رضوان کا ذکر ہے جو آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام سے حدیبیہ کے مقام پر ببول کے ایک درخت کے نیچے لی تھی، اور جس کا ذکر سورت کے تعارف میں آچکا ہے، اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ان حضرات نے یہ بیعت دل سے پورے عزم کے ساتھ کی تھی، وہ منافقوں کی طرح جھوٹا عہد کرنے والے نہیں تھے۔ 16: اس سے مراد خیبر کی فتح ہے، اس سے پہلے مسلمان دو طرفہ خطرے سے دوچار تھے، جنوب میں قریش مکہ کی طرف سے ہر وقت حملوں کا خطرہ رہتا تھا جس کا سد باب حدیبیہ کی صلح کے ذریعے ہوا، اور شمال میں خیبر کے یہودی تھے جو ہر وقت مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہتے تھے، اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ مسلمانوں نے حدیبیہ کے موقع پر جس جاں نثاری اور پھر اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کیا، اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں خیبر کی فتح عطا فرمادی جس سے ایک طرف شمالی خطرے کا سد باب ہوگا اور دوسری طرف بہت سا مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آئے گا، اور اس کے نتیجے میں معاشی خوش حالی حاصل ہوگی۔
Top