Ahkam-ul-Quran - Hud : 34
وَ لَا یَنْفَعُكُمْ نُصْحِیْۤ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَكُمْ١ؕ هُوَ رَبُّكُمْ١۫ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَؕ
وَلَا يَنْفَعُكُمْ : اور نہ نفع دے گی تمہیں نُصْحِيْٓ : میری نصیحت اِنْ : اگر اَرَدْتُّ : میں چاہوں اَنْ اَنْصَحَ : کہ میں نصیحت کردوں لَكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر (جبکہ) كَانَ : ہے اللّٰهُ يُرِيْدُ : اللہ چاہے اَنْ يُّغْوِيَكُمْ : کہ گمراہ کرے تمہیں هُوَ : وہ رَبُّكُمْ : تمہارا رب وَاِلَيْهِ : اور اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر جاؤ گے
اور اگر میں یہ چاہوں کہ تمہاری خیر خواہی کروں اور خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے تو میری خیر خواہی تم کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتی۔ وہی تمہارا پروردگار ہے۔ اور تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
قول باری ہے ولا ینفعکم نصحی ان اردتا انصح لکم ان کان اللہ یرید ان یغویکم ۔ اب اگر میں تمہاری کچھ خیر خواہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیر خواہی تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جبکہ اللہ ہی نے تمہیں بھٹکا دینے کا ارادہ کرلیا ہو ۔ اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جملہ شرطیہ میں شرط اور جزاء کے درمیان آ جانے والی شرط کا یہ حکم ہے کہ وہ معنی کے لحاظ سے اپنے ما قبل پر مقدم ہوتی ہے مثلاً کوئی شخص یہ کہتا ہے ۔ ان دخلت الدار ان کلمت زیدا ً فعبدی حر ۔ اگر میں گھر میں داخل ہوجائوں ، اگر زید سے کلام کروں تو میرا غلام آزاد ہے۔ یہ شخص اس وقت حانث ہوگا جب زید سے کلام کرے گا اور پھر گھر میں داخل ہوگا اس لیے کہ اس کا قول ان کلمت زیدا ً ۔ پہلی شرط کے درمیان آ جانے والی شرط ہے اور یہ جواب شرط یعنی جزا کی تکمیل سے پہلے ہی آ گئی ہے۔ اسی طرح قول باری ان کان اللہ یرید ان یغویکم شرط ہے جو قول باری ان اردت ان انصح لکم اور اس کی جزاء کے درمیان میں آ گئی ہے جبکہ ابھی جواب شرط کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ اس طرح عبارت کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگئی ہے۔ ولا ینفع لکم فصحی ان کان اللہ یرید ان یغویکم ان اردت ان انصح لکم اس مفہوم کے بارے میں امام ابو یوسف ، امام محمد اور فراء نحوی کے درمیان بہت سے مسائل میں اختلاف رائے ہے جن کا ہم نے جامع صغیر کی شرح میں تذکرہ کیا ہے۔ قول باری یرید ان یغویکم کا مفہوم ہے اگر اللہ تمہیں اپنی رحمت سے محروم کرنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے۔ غوی یغوی غیا گمراہ ہوگیا محروم ہوگیا ۔ اسی معنی میں یہ قول باری ہے فسوف فلقون غیا ۔ سو وہ عنقریب خرابی سے دو چار ہوں گے۔ شاعر کا قول ہے۔ ؎ فمن یلق خیرا یحمد الناس امرہ ومن یغولا یعد م علی الخی لائما ً جو شخص کس سے نیکی اور حسن سلوک دیکھے گا وہ لوگوں کے سامنے اس کی تعریفیں کرے گا اور جو شخص گمراہی اختیارکرے گا تو اسے اپنی اس گمراہی پر کوئی نہ کوئی ملامت کرنے والا مل ہی جائے گا ۔ ہمیں ثعلب کے غلام ابوعمرو نے ثعلب سے اور انہوں نے ابن الاعرابی سے یہ بیان کیا کہ کہا جاتا ہے غوی الرجل یغوی غیا ( فلاں شخص کا معاملہ خراب ہوگیا ، یا فلاں شخص نے اپنا معاملہ خود خراب کرلیا) انہوں نے مزید کہا کہ اس معنی میں یہ قول باری ہے جس کا تعلق حضرت آدم (علیہ السلام) کے واقعہ سے ہے۔ وعصی ادم ربہ فغوی اور آدم سے اپنے پروردگار کا قصور ہوگیا سو وہ غلطی میں پڑے گئے۔ یعنی آدم (علیہ السلام) کے لیے ان کی جنت والی زندگی خراب ہوگئی ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ مفہوم بھی پہلے معنی کی طرف راجع ہے وہ اس طرح کہ خیبت یعنی ناکامی کے اندر بھی زندگی خراب اور بگڑ جاتی ہے اس لیے قول باری یغویکم کا مفہوم یہ ہے کہ تمہیں اپنی رحمت سے محروم کر کے تمہاری زندگی اور تمہارا معاملہ خراب کردے۔
Top