Ahkam-ul-Quran - Al-Israa : 107
قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖۤ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًاۙ
قُلْ : آپ کہ دیں اٰمِنُوْا : تم ایمان لاؤ بِهٖٓ : اس پر اَوْ : یا لَا تُؤْمِنُوْا : تم ایمان نہ لاؤ اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ : علم دیا گیا مِنْ قَبْلِهٖٓ : اس سے قبل اِذَا : جب يُتْلٰى : وہ پڑھاجاتا ہے عَلَيْهِمْ : ان کے سامنے يَخِرُّوْنَ : وہ گرپڑتے ہیں لِلْاَذْقَانِ : ٹھوڑیوں کے بل سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے
کہہ دو کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ (یہ فی نفسہٖ حق ہے) جن لوگوں کو اس سے پہلے علم (کتاب) دیا گیا ہے جب وہ ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گرپڑتے ہیں۔
چہرے کے بل سجدہ کرنا قول باری ہے (ان الذین اوتوا العلم من قبلہ اذا یتلیٰ علیھم یخرون للاذقان سجداً جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ چہروں کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں۔ معمر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ ” چہروں کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں۔ “ معمر نے کہا حسن کا قول ہے ۔ جبڑے کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں۔ “ ابن سیرین سے ناک کے بل سجدے کے متعلق پوچھا گیا ، تو انہوں نے جواب میں درج بالا آیت تلاوت کردی۔ سجدہ سات اعضاء پر کرنا چاہیے، نماز میں بالوں کو اکٹھا کیا جائے نہ کپڑوں کو طائوس نے حضرت ابن عباس سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (امرت ان اسجد علی سبعۃ اعظم ولا اکف شعراً ولا ثوباً مجھے سات ہڈیوں کے بل سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے نیز یہ کہ میں نہ بالوں کو سمیٹوں اور نہ کپڑے کو) طائوس نے مزید کہا کہ آپ نے پیشانی اور ناک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دونوں ایک ہڈی ہیں۔ عامر بن سعد نے حضرت عباس بن عبدالمطلب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ” جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے ساتھ اعضاء بھی سجدہ ریز ہوتے ہیں اس کا چہرہ ، اس کے دونوں کف دست ، اس کے دونوں گھٹنے اور اس کے دونوں قدم، حضور ﷺ سے آپ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے کہ جب تم سجدہ کرو تو اپنی پیشانی اور ناک اچھی طرح زمین پر جما دو ۔ “ سجدہ میں ناک زمین پر لگنی چاہیے حضرت وائل بن حجر نے روایت کرتے ہوئے فرمایا :” میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ نے جب سجدہ کیا تو اپنی پیشانی اور اپنی ناک زمین پر رکھ دی۔ “ ابو سلمہ بن عبدالرحمٓن نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی ناک اور ناک کے بانسے پر سجدے کے نشان کے طور پر مٹی لگی ہوئی دیکھی تھی۔ اس رات بارش ہوئی تھی۔ عاصم احوال نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص کو سجدے میں دیکھ کر فرمایا : اس وقت تک نماز قبول نہیں ہوگی جب تک زمین پر ناک اس طرح نہ لگے جس طرح پیشانی لگتی ہے۔ یہ تمام روایات اس پر دال ہیں کہ سجدہ کی جگہ پیشانی اور ناک دونوں ہیں۔ عبدالعزیز بن عبداللہ نے روایت کرتے ہوئے کہا : میں نے وہب بن کیسان سے پوچھا۔” ابونعیم، کیا بات ہے کہ آپ سجدہ کرتے وقت پیشانی اور ناک کو پوری طرح زمین پر نہیں جماتے ہیں ؟ انہوں نے جواب میں کہا۔” اس لئے کہ میں نے حضرت جابر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے حضور ﷺ کو پیشانی کے بل سر کے بالوں کے منتہی کے ساتھ سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ابو الشعثاء نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عمر کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ آپ نے سجدہ کرتے وقت اپنی ناک زمین پر نہیں رکھی تھی۔ آپ سے جب اسکی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا : میری ناک میرے چہرے کا عمدہ اور خالص حصہ ہے اور میں اس حصے کو بدنما کرنا پسند نہیں کرتا۔ “ قاسم اور سالم سے مروی ہے کہ یہ دونوں اپنی پیشانیوں پر سجدہ کرتے تھے اور ان کی ناک زمین پر نہیں لگتی تھی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جہاں تک حضرت جابر کی روایت کا تعلق ہے تو ہوسکتا ہے کہ حضور ﷺ نے کسی عذر کی بنا پر سر کے بالوں کے منتہی کے بل سجدہ کیا ہو اور اس عذر کی وجہ سے ناک کے بل سجدہ کرنا مشکل ہوگیا ہو جن حضرات نے وجوہ یعنی چہروں کی تاویل جبڑے سے کی ہے ان کی یہ تاویل اس پر دلالت کرتی ہے کہ پیشانی کی بجائے صرف ناک کے بل سجدے پر اکتفا کرنا جائز ہے اگرچہ مستحب یہ ہے کہ پیشانی اور ناک دونوں کے بل سجدہ کیا جائے۔ اس جواز کی وجہ یہ ہے کہ ایک بات واضح ہے کہ تاویل کرنے والے حضرات نے ذقن یعنی ٹھوڑی کے بل سجدہ کرنا مراد نہیں لیا ہے اس لئے کہ کسی بھی اہل علم کا یہ قول نہیں ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس سے ناک مراد ہے اس لئے کہ یہ ٹھوڑی کے قریب ہے۔ امام ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی نے پیشانی کی بجائے صرف ناک کے بل سجدہ کرلیا تو اس کا سجدہ ہوجائے گا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا مسلک یہ ہے کہ سجدہ نہیں ہوگا۔ البتہ اگر اس نے ناک کی بجائے صرف پیشانی کے بل سجدہ کرلیا تو سب کے نزدیک اس کا سجدہ ہوجائے گا۔ العطاف بن خالد نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا :” جب تمہاری ناک زمین سے لگ جائیتو گویا تم نے سجدہ کرلیا۔ “ سفیان نے حنظلہ سے اور انہوں نے طائوس سے روایت کی ہے کہ پیشانی اور ناک ان سات اعضاء میں سے ہیں جن کے بل نماز میں سجدہ ہوتا ہے اور یہ دونوں ایک عضو ہیں۔ ابراہیم بن میسرہ نے طائوس سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ناک پیشانی کا حصہ ہے۔ نیز کہا کہ پیشانی کا بہترین حصہ ہے۔
Top